اصل ایمان ۔ ابویحییٰ
ہمارے ادارے میں کچھ عرصے قبل ایک صاحب ملازم ہوئے۔ یہ صاحب بہت مسکین طبعیت کے مالک تھے۔ وہ آفس کے تمام لوگوں کے ساتھ بڑی مسکینی کے ساتھ معاملہ کرتے لیکن جب میرے کمرے میں آتے تو غیرمعمولی عاجزی کا مظاہرہ کرتے۔ وہ ہمیشہ میرے کمرے میں باقاعدہ اجازت طلب کر کے آتے۔ جب تک میں ’فرمائیے‘ کہہ کر گفتگو کا آغاز نہ کرتا ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے۔ اگر اپنی طرف سے کچھ کہنا ہوتا یا کچھ دریافت کرنا ہوتا تو اس کی بھی اجازت طلب کرتے۔ گفتگو کے دوران میں ان پر ایک خاص نوعیت کی خشوع و خضوع طاری رہتی۔ ہاتھ باندھنے کے علاوہ نگاہ میں لحاظ، گردن میں خم، لہجے میں جھجک اور آواز میں پستی ہوتی۔ ان کی ہر بات سوری سے شروع ہوکر شکریے پر ختم ہوتی۔
مجھے اپنے لیے ان کا یہ انداز اختیار کرنا قطعاً ناپسند تھا، لیکن میں نے کبھی انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کیا۔ بلکہ جب کبھی وہ کمرے میں آتے میں غور سے ان کی ایک ایک حرکت کو دیکھتا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میں ان سے گفتگو کے دوران میں یہ سیکھ رہا ہوتا تھا کہ پروردگار عالم کے بے حیثیت غلاموں کو اس کی بارگاہ میں کس طرح پیش ہونا چاہیے۔
خدا انسانوں کا خالق، ان کا مالک، ان کا بادشاہ اور ان کا معبود حقیقی ہے۔ انسانوں کا ہر نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ موت و زندگی کا ہر فیصلہ اسی کی بارگاہ سے صادر ہوتا ہے۔ عطا اور محرومی کا ہر حکم اسی کا جاری کردہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک نظر مفلس کو غنی اور گدا کو بادشاہ بنا سکتی ہے۔ اس کا ایک اشارہ مالک کو غلام اور امیر کو فقیر بنا سکتا ہے۔ خدا کی عظمت اور بلندی کا احساس، اس کی نعمتوں اور مہربانیوں کا اعتراف، اس کی پکڑ اور عذاب کا اندیشہ، جس انسان کو ہوجائے اس کے لیے بے پرواہی اور غفلت کی زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ ایسا انسان جب کبھی خدا کو یاد کرے گا تو اس کی وہی کیفیت ہوجائے گی جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یہ حال نہ بھی ہو تب بھی اس کے لیے گناہ اور نافرمانی کی زندگی گزارنا ممکن نہیں رہتا۔
کلمہ پڑھ لینا حقیقی ایمان نہیں، خدا کی عظمت کے احساس کا وجود پر طاری ہوجانا اصل ایمان ہے۔