مغرب اور آج کا چیلنج ۔ ابویحییٰ
مرزا غالب (1796-1869) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے ہیں اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے ہیں۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالبا ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
تاہم بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی راہنمائی کی تھی، جو اگر مسلمان اختیار کر لیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا، مگر قومی معاملات میں ان کی راہنمائی کو نظر انداز کر دیا۔ اور سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ یہ کام اس شخص نے کیا جو خود آنے والے دنوں میں برصغیر کے مسلمانوں کا بہت بڑا رہنما بنا یعنی سر سید احمد خان۔
1855 میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف ’’آئین اکبری‘‘ کی تصیح کر کے اسے دوبارہ شائع کیا۔ غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا۔ اس میں انہوں نے سرسید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔
بدقسمتی سے اس نصیحت کو سرسید نہ سمجھ سکے۔ وہ انگریزوں سے متاثر تو ضرور ہوئے، مگر سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی ترقی سرسید کا آئیڈیل نہ بنی۔ بلکہ انگریزوں کی زبان، ان کی معاشرت، ان کے سماجی علوم یہی سرسید کے نزدیک مسلمانوں کے لیے کامل نمونہ تھے۔ اِنہی کی تحصیل کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو ابھارا اور اسی مقصد کے لیے ایک زبردست تعلیمی تحریک برپا کی۔ اس کا یہ فائدہ تو بہرحال ہوا کہ مسلمان اس قابل ہوگئے کہ انگریزی معاشرے کے دیگر نظاموں کے ساتھ ان کے نظام سیاست کو سمجھ کر ان سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، مگر بدقسمتی سے اس کے اثرات تہذیبی اور ثقافتی طور پر ان پر بہت برے پڑے۔ مسلم اشرافیہ (Elite) میں انگریزوں کی زبان، لباس، ثقافت، رہن سہن اور اقدار سے مرعوبیت کی نفسیات پیدا ہوگئی۔ بدقسمتی سے آج کے دن تک ہمارے پڑھے لکھے اور صاحب ثروت طبقات اسی نفسیات میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلو مثلاً قانون کی عملداری، سماجی عدل، تحریر و تقریر کی آزادی کا تو چلن ہمارے ہاں آج تک نہیں ہوسکا البتہ انگریزی زبان اور انگریزی طرز زندگی ہمارے ہاں عزت و شرف کا معیار سمجھے جاتے ہیں۔
اس صورتحال میں مزید خرابی ہماری مذہبی قیادت نے پیدا کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف شروع ہی سے سرسید سے متضاد طرز فکر اختیار کیا۔ یعنی انگریزوں اور انگریزی تہذیب کے ہر پہلو سے شدید نفرت۔ سرد جنگ کے زمانے میں سیاسی حالات کی بنا پر یہ رویہ کچھ بہتر ہوا تھا مگر 9/11 کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر اس ذہنیت کا بھرپور اظہار ہورہا ہے۔
مسلمانوں کے لیے درست راستہ اس وقت صرف یہ ہے کہ وہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ایک درمیانی راستہ اختیار کریں۔ انہیں نہ مغرب سے مرعوب ہونا ہے اور نہ اس سے نفرت کرنی ہے۔ اس وقت مغرب دنیا کا حکمران ہے۔ ان کی تہذیب دنیا کی غالب تہذیب ہے۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے امام ہیں۔ ان کی اس اہمیت کی بنا پر ان کے ساتھ بڑے تدبر کے ساتھ معاملہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے تین پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ سائنسی علوم اور تمدنی ارتقا میں ان کی ترقی کو کلی طور پر لینا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔ دوسرے ان کی تہذیب کے وہ پہلو جو ہماری بنیادی اقدار کے خلاف ہیں، ان کو ہر صورت میں اپنے اندر درآنے سے روکنا ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔ مثلاً ہماری تہذیب آخرت پسندی، حیا اور حفظ مراتب کے ارکان ثلاثہ پر کھڑی ہے۔ ان پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ان کے درمیان میں جو ثقافتی عناصر ہیں مثلاً زبان وغیرہ ان پر سمجھوتہ کرنا ہماری مجبوری ہے۔ اس حکمت عملی کو اپنائے بغیر ہم اس چیلنج کا سامنا موثر طریقے سے نہیں کرسکتے جو آج ہمیں درپیش ہے۔