اعتراف اور چیلنج ۔ ریاض علی خٹک
پنسلوانیا یونیورسٹی کے مارٹن سلیگمن نے دُنیا داری کے کامیاب اور ناکام افراد پر طویل تحقیق کی۔ اس کی تحقیق کا اگر نچوڑ نکالا جائے تو وہ سوچ کا ایک بنیادی فرق نکلتا ہے۔
ایک وہ سوچ ہے جو اپنی ناکامی کو اپنی ذات کی وہ کمی سمجھتے ہیں جو ان کے بس سے باہر ہو۔ دوسری وہ سوچ ہے جو اپنی ناکامی کو اپنی غلطی سمجھتے ہیں اور ان غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس نے غلطی مان لی یا سمجھ لی وہ کامیاب ہوا۔
اپنی غلطی کو مان لینا اور ناکامی کو تسلیم کرلینا آسان نہیں ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ اس راستے پر چلنے والے ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ غلطی سے کامیابی کا راستہ چیلنج کہلاتا ہے۔ کس نے اپنے آپ کو چیلنج کیا؟ کس نے اپنی ذات کو کتنا بڑا چیلنج دیا؟ آپ کی کہانی آپ کا یہ چیلنج طے کرتا ہے۔
چیلنج کیا ہے؟ جنگل میں گرے ایک بیج کا چیلنج کوئی بڑا چیلنج نہیں۔ زمین آب و ہوا موسم سب موافق ہوتا ہے۔ ایک ننھا سا پودا جب نکلتا ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے آس پاس کے تناور درخت اسے موسم و طوفانوں کی شدت سے بچائیں گے۔ لیکن جنگل میں اس کی اپنی کوئی پہچان بھی نہیں۔
لیکن کھلے میدان میں گرے بیج کا چیلنج منفرد ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے میں اکیلا میدان میں ہوں گا۔ ہر موسم ہر خطرہ مجھے ہی جھیلنا ہے۔ یہ چیلنج لے کر اگر وہ سر اٹھا کر بلند ہونا شروع ہو جائے تو کچھ ہی عرصہ بعد اس کے آس پاس ہریالی نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن سارے میدان کی پہچان یہی بنتا ہے۔ ہاں یہ چیلنج ہے۔ یہی برانڈ کہلاتا ہے۔