شب قدر اور خدا کی قربت ۔ ابویحییٰ
قرآنِ مجید میں شبِ قدر کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ہر بندۂ مؤمن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اِس رات عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کے قرب کے وہ مواقع حاصل کرے جو ہزار مہینوں سے افضل ہیں۔ تاہم جیسا کہ معلوم ہے کہ اس رات کی تعیین قرآن و حدیث میں نہیں ملتی۔ زیادہ سے زیادہ جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تاہم جہاں تک اللہ تعالیٰ کے قرب کا تعلق ہے وہ شبِ قدر کی رات یا کسی اور وقت یا مقام پر موقوف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب اور عنایت بندۂ مؤمن کو ہر اُس وقت اور ہر اُس مقام پر نصیب ہوسکتے ہیں جب وہ پوری طرح اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں۔ اُس کے قلب میں اللہ پاک کی رضا کے سوا کوئی جذبہ نہ ہو۔ وہ زندگی کے ہر نفع و ضرر کا مالک تنہا اپنے رب کو سمجھ کر اُس کی طرف لپک رہا ہو۔ یہی وہ بندہ ہے جو بلاشبہ رب کی قربت اور اُس کی حضوری کا شرف حاصل کرلیتا ہے۔ ایسے میں بندہ دعا مانگتا ہے اور رب قبول کرتا ہے، وہ سجدہ کرتا اور اُس کی حمد و تسبیح کرتا ہے اور رب اس کے ان اعمال کی قدردانی کرتا ہے۔
پھر صرف یہی ایک معاملہ نہیں متعدد ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو خدا کی خاص عنایت سے نوازتی ہیں۔ اللہ کی راہ میں اس وقت خرچ کرنا جب تنگی کا موقع ہو۔ کسی کمزور کی غلطی کو اُس وقت معاف کر دینا جب انسان اُس سے بدلہ لینے کی پوری قدرت رکھتا ہو۔ تنہائی میں کسی ایسے گناہ سے رُک جانا جس میں نہ کسی رسوائی کا اندیشہ ہو اور نہ کسی پکڑ کا خوف۔ یہ سب احوال و مقامات وہ ہیں جو انسان کو خدا کے قرب سے نوازتے ہیں۔ شبِ قدر پانا کسی کے اختیار میں نہیں، لیکن یہ معاملات ہر شخص کے ہاتھ میں ہیں۔ ہم جب چاہیں ان کے ذریعے اپنے رب کا قرب اور عنایت حاصل کرسکتے ہیں۔