سنہری موقع ۔ ابویحییٰ
کیا ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں کچھ معقول لوگ موجود ہیں؟
پلوامہ حملے کے بعد انتہا پسندی کا شکار بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا نے جو جنگی جنون بھڑکایا تھا اس کا نتیجہ سرجیکل اسٹرایک کی شکل میں نکل آیا ہے۔ اب ایک راستہ غصے اور جذبات میں آکر جنگ کرنے کا ہے جس سے تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دوسرا راستہ خاموش رہنے کا ہے جس سے بھارتی انتہا پسندوں کا حوصلہ بڑھے گا۔
مگر ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ یہ راستہ اگر اختیار کرلیا جائے تو نہ صرف بھارتی انتہا پسندوں کو لگام ڈالی جاسکتی ہے بلکہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی راہ بھی کھل سکتی ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس وقت بھارتی حکومت جذبات میں آکر ایک حماقت کرچکی ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے پاکستانی کی سرحد کے اندر گھس کر ہوائی حملہ کیا ہے جو 1971 کی جنگ کے بعد پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل کارگل کی جنگ میں بھی یہ نوبت نہیں آئی تھی۔
بھارت نے نہ صرف یہ حملہ کیا بلکہ ان کے دفتر خارجہ نے اس کی ذمہ داری قبول بھی کی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جو الزام وہ پاکستان پر لگا رہے کہ پلوامہ حملے میں پاکستان ملوث ہے، اسے ثابت کرنا آسان نہیں۔ مگر ان کی جارحیت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے لے کر پاکستان اگر اچھی سفارتی حکمت عملی بنائے تو بھارت کو شدید مشکلات کا شکار کرسکتا ہے۔
یہ قدرت کا دیا ہوا نادر موقع ہے جو بھارتیوں کی جذباتیت کی بنا پر پاکستان کو مل چکا ہے۔ یہی موقع ہے کہ بھارت کے خلاف زبردست سفارتی جنگ کا آغاز کیا جائے۔ کشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ سوال بس یہ ہے کہ کیا ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں کچھ معقول لوگ موجود ہیں؟ اگر ہیں تو جان لیں کہ قدرت نے انھیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا شاید آخری موقع دے دیا ہے۔