تازہ برف ۔ ابویحییٰ
آسمان سے برسنے والی برف خدا کی قدرت، حکمت، صناعی اور جمال کا ایک انتہائی خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ برف ایک طرف ننگے پہاڑوں کو سفید قبا پہناتی ہے تو دوسری طرف انھیں پانی کے اس ذخیرے میں بدل دیتی ہے جو سارا سال دریاؤں کو رواں رکھتے ہیں۔ سورج کی سنہری کرنوں سے روشن، شفق کی سرخی سے مزین اور بے داغ چاندنی میں چمکتے پہاڑ ایک طرف حسن قدرت کا بے مثل نظارہ پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف پگھلتی برف کی شکل میں نباتاتی، حیوانی اور انسانی بقا کے ضامن ہیں۔
اس برف کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ آسمان سے زمین پر گرنے والی تازہ برف کی سفیدی ایسی اجلی، شفاف اور خالص ہوتی ہے کہ اس جیسی خالص سفیدی کو ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہ اتنی نرم اور لطیف ہوتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم پتے بھی اس کا بوجھ سہار سکتے ہیں۔
اس تازہ برف کی کوئی دوسری نظیر اس دنیا میں ڈھونڈنا آسان نہیں۔ ہاں ایک چیز ایسی ہے جو تازہ برف کی طرح بے داغ اور اجلی ہوتی ہے۔ یہ بندہ مومن کا دل ہے۔ اس دل میں حرص، ہوس، حسد، لالچ، نفرت، تعصب، کبر، غفلت، ظلم غرض کسی قسم کی برائی کا کوئی داغ نہیں ہوتا۔
مگر جس طرح تازہ برف کو زمین کی مٹی آلودہ کر دیتی ہے، اسی طرح قلب مومن کو دنیا کے معاملات کبھی کبھی آلودہ کر جاتے ہیں۔ مگر ایسے میں کوئی دل زندہ ہو تو وہ تڑپ کر اپنے مالک کو پکارتا ہے کہ میرے رب میرے دل کو اسی طرح صاف اور شفاف بنا دے جس طرح تازہ برف اجلی اور بے داغ ہوتی ہے۔ ایسی عارفانہ دعا خدا کبھی رد نہیں کرتا۔ وہ بندے کے دل کو بھی اسی طرح بے داغ کر دیتا ہے جیسے تازہ گری ہوئی برف ہوتی ہے۔ مگر یہ پاکیزگی صرف اسی شخص کو ملتی ہے جس کی کُل وفاداری خدا کے ساتھ ہو۔ تعصب اور خواہش کے داغ لیے لوگ نہ اس دعا کی توفیق پاتے ہیں نہ ان کو کبھی پاکیزگی عطا کی جاتی ہے۔