نظریہ سازش اور الزامی سوچ کی حقیقت ۔ ابویحییٰ
(چوتھی تحریر)
[اس کتاب کی مناسبت سے قارئین کے سامنے میں اپنی ایک پرانی تحریر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تحریر اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس سے قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح بڑے اہل علم اور زمانے کو متاثر کرنے والی شخصیات کے خلاف پورے اعتماد سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ میرے لیے اس تحریر کی اہمیت یوں بہت زیادہ ہے کہ میں نے اپنے بریلوی پس منظر کی بنا پر انہیں گستاخ رسول سمجھ کر زندگی میں سب سے زیادہ شیخ محمد بن عبدالوھاب اور ان کے پیروکاروں ہی سے نفرت کی۔ مگر اس تحریر میں شیخ کا دفاع کر کے میں نے اپنے اس گناہ کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں کو درگزر فرمائے۔ ابویحییٰ]
ایک جاسوس کی چشم کشا سرگزشت
حال ہی میں ایک معروف مورخ اور کالم نگار نے روزنامہ جنگ میں ایک جاسوس کی چشم کشا سرگزشت کے عنوان سے تین کالم لکھے۔ یہ کالم ایک برطانوی جاسوس ہمفرے کی ڈائری کے حوالے سے ہے۔ ڈائری یا کتاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس جاسوس نے اٹھارہویں صدی کے آغاز پر کس طرح مسلمانوں میں انتشار اور افتراق کا بیج بویا۔
نظریہ سازش پر مبنی اس طرح کی چیزوں پر قلم اٹھانا ہماری دلچسپی کا میدان نہیں، مگر روزنامہ جنگ جیسے اخبار میں اس کتاب کا ذکر آجانے کے بعد یہ بات لازمی ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے زیر تبصرہ کتاب کو انٹرنیٹ پر پڑھ لیا ہوگا۔ ہمارے لیے یہ بات بھی اہم نہیں، مگر سوئے اتفاق کہ اس کتاب میں دور جدید کے ایک بہت بڑے مصلح کو جس حیثیت میں پیش کیا گیا ہے اور ان کی کردار کشی کرتے ہوئے انہیں ایک زانی، شرابی کے طور پر دکھایا گیا اور ان کے پورے اصلاحی کام کو برطانوی ایجنڈا قرار دیا گیا ہے، اس کی بنا پر ضروری ہے کہ کچھ امور پر اب توجہ دلائی جائے۔
نظریہ سازش
فاضل کالم نگار نے خوف فساد خلق سے ان مصلح کا نام نہیں لکھا لیکن سارے واقفان حال جانتے ہیں کہ اصل کتاب میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ان کے کام کی اخلاقی حیثیت کو بری طرح مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے لیے ایک مصلح تو کیا ایک عام مسلمان کی طرف بھی اس طرح کی چیزوں کی نسبت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، مگر ہمارے ہاں نظریہ سازش اس طرح فروغ پاچکا ہے کہ لگتا ہے کہ لوگ ایسی باتوں کو سننے اور بغیر تصدیق کے ماننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ چنانچہ فاضل کالم نگار نے غالباً کسی بری نیت سے نہیں بلکہ اسی نظریہ سازش کو قبول کرتے ہوئے بہت اطمینان سے اس کتاب پر تین کالم لکھ ڈالے جس کا اپنا متن پکار پکار کر یہ بتا رہا ہے کہ یہ سر تا سر ایک جعلسازی ہے۔ فاضل کالم نگار جو خود ایک مورخ ہیں بڑے اعتماد سے کالم کے آغاز پر فرماتے ہیں۔
’’میں چونکہ بنیادی طور پر تاریخ کا طالب علم ہوں اس لیے اس کتاب کے مطالعے نے مجھے تھوڑا سا حیران کر دیا۔ حیرانی کے اس عالم میں کتاب میں بیان کیے گئے واقعات کی تصدیق دوسرے واقعات سے کی تو راز کھلا کہ اس میں بیان کیے گئے واقعات و حالات کافی حد تک درست ہیں۔‘‘
ایک مورخ جب اس طرح کی بات کہہ دے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زیر بحث کتاب کو وہ سند تصدیق عطا کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کتاب میں تاریخی واقعات بہت کم اور ہمفرے نامی جاسوس کے وہ واقعات زیادہ بیان ہوئے ہیں جو اس کی ذاتی روداد ہے۔ ایک تو ذاتی روداد اور وہ بھی ایک جاسوس کی جس کی ساری سرگرمیاں بالکل خفیہ ہوتی ہیں، اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی کہ دیگر تاریخی واقعات سے ان کی تصدیق کی جاسکے۔
کتاب میں موجود تاریخی غلطیاں
تاہم اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں جو اہم ترین تاریخی باتیں بیان ہوئیں وہ آخری درجے میں کتاب کی سچائی کو مشکوک کر دیتی ہیں۔ ہم ان میں سے دو کا ذکر کریں گے۔ ان میں سے پہلی بات عالمی سیاسی حالات کے بارے میں ہے۔ کتاب کے آغاز میں ہمفرے کہتا ہے۔
Our Great Britain is very vast. The sun rises over its seas, and sets, again, below its seas. Our State is relatively weak yet in its colonies in India, China and Middle East.
ترجمہ:’’ہمارا عظیم ملک برطانیہ بہت وسیع وعریض ہے۔ سورج اس کے سمندروں پر طلوع ہوتا اور اسی کے پانیوں پر غروب ہوجاتا ہے۔ تاہم ہماری مملکت انڈیا، چین اور مشرق وسطیٰ میں قائم اپنی نوآبادیوں میں قدرے کمزور ہے۔‘‘
یہ پہلے باب کا آغاز تھا اور دوسرے باب کے آغاز پر یہی صاحب اس زمانے کا تعین بھی خود ہی کر رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے۔
In the Hijree year 1122, C.E. 1710, the Minister of Colonies sent me to Egypt, Iraq, Hidjaz and Istanbul to act as a spy and to obtain information necessary and sufficient for the breaking up of Muslims.
ترجمہ:’’سن 1122 ہجری، 1710 عیسوی میں وزارت نوآبادیات نے مجھے مصر، عراق، حجاز اور استنبول میں بطور جاسوس کام کرنے اور وہ معلومات حاصل کرنے کے لیے روانہ کیا جو مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے ضروری تھیں۔‘‘
دو اور دو چار کی طرح اس کا مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں سورج برطانیہ کے پانیوں سے طلوع ہوکر اسی کے سمندروں میں غروب ہوتا تھا اور مشرق وسطیٰ، چین اور ہندوستان برطانیہ کالونیاں بن چکے تھے، وہ 1710 عیسوی یا اس کے کچھ بعد کا زمانہ ہے۔ تاریخ کا معمولی علم رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات خلاف واقعہ ہے، کجا یہ کہ بر صغیر کی تاریخ کا ایک معروف مورخ اتنی موٹی بات کو نہ سمجھ سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1710 سے صرف تین برس قبل یعنی 1707 تک اورنگزیب عالمگیر متحدہ برصغیر کے 1250 ملین مربع میل اور دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر پورے دبدبے کے ساتھ حکومت کر رہا تھا۔ اس واقعے کے کم و بیش نصف صدی بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو1757 میں جاکر بنگال میں سراج الدولہ کے مقابلے میں پہلی فتح حاصل ہوتی ہے۔ پھر اس کے ایک صدی بعد 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہی ہندوستان رسمی طورپر تاج برطانیہ کے زیر نگیں آیا۔ جبکہ مڈل ایسٹ میں برطانیہ کا اقتدار سب سے پہلے مصر میں 1882 میں قائم ہوا۔ رہا چین تو یہ 1842 میں ہوا کہ چین کا جزیرہ ہانگ کانگ برطانیہ کے زیر انتظام آیا اور چین میں پہلی برطانوی نوآبادی قائم ہوئی۔
شیخ محمد بن عبد الوھاب سے متعلق ایک تاریخی غلطی
اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ایک تاریخی جھوٹ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے آغاز پر برطانوی کالونیاں مشرق وسطیٰ، چین اور ہندوستان میں قائم ہوچکی تھیں۔ یہ اصل میں انیسویں صدی کا واقعہ ہے جسے غلط طور پر اٹھارہویں صدی کے آغاز کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ اب آیئے دوسری بات کی طرف۔ ہمفرے کے حوالے سے کتاب میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ وہ 1710 میں استنبول گیا۔ دو سال وہاں رہا اور ایک سال کے بعد بصرہ پہنچا۔ اس طرح یہ سن 1712 یا 1713 کے لگ بھگ کا زمانہ تھا۔ بصرہ میں اس کی ملاقات شیخ سے ہوئی۔ ہمفرے کے مطابق شیخ عربی، فارسی اور ترکی روانی سے بول رہے تھے۔ عثمانیہ خلافت کے خلاف باغیانہ خیالات کی ترویج کر رہے تھے۔ دینی معاملات پر مروجہ تصورات کے خلاف سخت تنقیدیں کرتے تھے۔ علمی بحث و مباحثہ کر رہے تھے۔ ہمفرے نے ان سے دوستی کی اور جلد ہی انہیں ایک عورت سے متعہ پر آمادہ کرلیا اور وہ شراب بھی پینے لگے۔
قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ شیخ اپنے آبائی وطن سے ہزاروں میل دور جب یہ سب کچھ کر رہے تھے تو ان کی عمر مصدقہ تاریخ کے مطابق صرف 9 یا 10سال کی تھی۔ انا للہ وہ انا الیہ راجعون۔ تاریخی طور پر شیخ کا سن پیدائش 1703 یا 1704 بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ 1713 میں ان کی عمر صرف نو یا دس برس ہونی چاہیے۔ خیال رہے کہ مصدقہ تاریخی حوالوں کے مطابق بصرہ آنے سے قبل شیخ حجاز اور خاص کر مدینہ میں رہ کر علم کی تحصیل بھی کرتے رہے۔ اس لیے مورخین عام طور پر یہ بات بیان کرتے ہیں کہ بصرہ کا سفر شیخ نے اس وقت کیا جب ان کی عمر بیس برس سے اوپر کی تھی۔ یعنی یہ واقعہ 1723 کے بعد کا ہے، اس سے پہلے کا نہیں۔
یہ ہے ہمفرے کے دعووں کی حقیقت جس کی بنیاد پر یہ مکروہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ ان دو واقعات کی روشنی میں اس کتاب کی صحت اور عدم صحت کا فیصلہ باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ اسی نوعیت کی اور کئی تاریخی غلطیاں بھی اس کتاب میں پائی جاتی ہیں۔
دو توجہ طلب چیزیں
تاہم ہمارے نزدیک اصل توجہ طلب چیزیں دو ہیں۔ ایک یہ کہ ہماری قوم ہر معاملے میں نظریہ سازش قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت کیوں تیار رہتی ہے؟ یہ معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ایک مورخ بھی سوچے اور تحقیق کیے بغیر اطمینان سے لاکھوں لوگوں کو اس سازش کی اطلاع دے دیتا ہے۔ جب ایک مورخ کا یہ حال ہے تو عوام الناس کا معاملہ تو جانے دیجیے۔ اہل علم کا معاملہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کو سچائی سے آگاہ کریں۔ اور سچائی یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی ذلت اور بدحالی میں کسی سازش سے زیادہ علم و اخلاق میں ان کی پستی بنیادی وجہ بنی ہوئی ہے۔ اور تعصب اور جہالت ان کے بیشتر مسائل کی جڑ ہے۔ یہی ہماری بربادی کا اصل سبب ہے۔
دوسری توجہ طلب چیز یہ ہے کہ بدقسمتی سے اس کتاب کو سلفی نقطہ نظر کے مخالفین نے بہت پھیلایا ہے اور متعدد زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز شیخ سے حسن ظن رکھنے والوں اور ان کے معتقدین کے لیے بڑی تکلیف دے ہوگی۔ لیکن اصل سانحہ یہ ہے کہ شیخ کے اپنے نام لیوا خاص کر برصغیر میں ان سے متاثر مسلمانوں کے دو بڑے گروپ یعنی اہل حدیث اور دیوبندی حضرات یا ان سے متاثر اہل علم اور تنظیمیں بھی اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے اہل علم کے ساتھ کچھ زیادہ مختلف معاملہ نہیں کرتے۔ میں بعض اہل علم کے خلاف چلنے والی مہموں کی تفصیلات اگر یہاں بیان کر دوں تو قارئین یہ جان کر حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ ان مہموں اور ’’ہمفرے کے انکشافات‘‘ میں کوئی فرق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ان میں اور ان کے اکابرین کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں میں اخلاقی طور پر کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے صالحین کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے کہ پروردگار عالم اپنے صالح بندوں کو ہر حال میں ایسے الزام و بہتان سے بچا لیتا ہے، مگر الزام لگانے والے یقیناً اس عمل میں اپنی آخرت کھو دیں گے۔
رہی دنیا تو ایسی بے سروپا مہموں سے نہ شیخ کے نقطہ نظر کی مقبولیت میں کمی آئی ہے نہ دیوبندی اکابرین کے خلاف کفر و ارتداد کے فتووں سے کچھ فرق پڑا ہے۔ نہ مولانا مودودی کی عظمت میں کوئی کمی آئی ہے۔ اس لیے ان سب کے پیروکار اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے اہل علم اور مصلحین کے خلاف جھوٹی مہمیں چلا کر ان کا راستہ روکا جاسکے گا تو یہ ایک غلط فہمی ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی۔ یہ وہ وقت ہوگا جب روز قیامت قرآن مجید ان کے خلاف کھڑے ہوکر گواہی دے گا۔ وہ اللہ کا حکم یوں سنائے گا:
’’ایمان والو! اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے۔‘‘(مائدہ8:5)
اس روز ہر جھوٹے، بہتان طراز اور سنی سنائی بات آگے پھیلانے والے کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا میں اللہ کے لیے نہیں بلکہ اپنے فرقے کے لیے کھڑا ہوا تھا۔ اس لیے کہ جو اللہ کے لیے کھڑے ہوتے ہیں وہ تہذیب کے ساتھ اختلاف تو کرسکتے ہیں، مگر کبھی عدل وانصاف سے ہٹ کر کسی کے ساتھ معاملہ نہیں کرتے۔ چاہے وہ ان کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔