جب زندگی شروع ہوگی پر اعترضات کا جائزہ ۔ ابویحییٰ
(پہلی تحریر)
اس تصنیف کے دیباچہ میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ میں اپنی کتاب پر لگائے گئے کسی الزام کا دفاع نہیں کروں گا۔ الحمدللہ جو کچھ میں پیچھے لکھ چکا ہوں سچی بات یہ ہے کہ اس کے بعد اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہی کہ ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ پر اعتراضات کا جواب دیا جائے۔ آپ ذرا ایک نظر ان اصولوں کو ذہن میں تازہ کر لیجیے جو میں نے پہلے باب میں نقل کیے ہیں۔
۱) فرع کو اصل کی جگہ لے جانا اور اسے اختلاف کی وجہ بنا دینا۔
۲)علم کے بغیر اور جذبات سے مغلوب ہوکر کلام کرنا۔
۳) نبی کی جگہ پر کھڑے ہوکر اپنی ناقص رائے اور ناقص علم اور خود ساختہ معیارات پر دوسرے کے کام بلکہ ان کی نیت اور شخصیت تک پر فیصلہ دینا۔
۴) اختلاف کرتے ہوئے مستشرقین اور منافقین کے اس طریقے کو اختیار کرنا جس کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہستی بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔
۵)مروجہ ڈگر سے ہٹ کر کسی نئے اور تخلیقی کام کی مخالفت کرنا
۶) اسلاف کے اس طریقے کو چھوڑنا جس میں وہ علم و تحقیق اور اختلاف رائے کی اجازت دیتے تھے۔
۷) الزام و بہتان کو بلاتحقیق آگے پھیلانے کی نفسیات، حسن ظن سے کام لینے کے بجائے سنی سنائی اور منفی باتوں کو دوسروں میں عام کرنا۔
قارئین میں سے جن لوگوں نے یہ تنقیدیں پڑھی ہیں یا وہ کبھی ان کوپڑھیں گے تو صاف دیکھ لیں گے کہ ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ پر کیے جانے والے اعترضات ان تمام اصولوں کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہیں۔ یہی ان بیشتر تنقیدوں کا معاملہ ہوتا ہے جو فرقہ وارانہ پس منظر میں ایک متعصب ذہن کے ساتھ کی جاتیں ہیں۔ ہاں علمی تنقیدیں کچھ اور ہوتی ہیں، مگر ان کا بیان سردست میرا موضوع نہیں ہے۔
یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ’’ جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کوئی اختلافی نوعیت کی کتاب نہیں ہے۔ وہ دین کی مسلمہ اور بنیادی دعوت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اساس یعنی توحید اور آخرت کی دعوت پر مبنی ہے۔ ہمارے معاصرین دین کو کیسے سمجھتے ہیں، ان کے نقطہ نظر میں کیا خرابی ہے، یہ سرے سے اس کتاب کا موضوع ہی نہیں ہے۔ میں نے نہ دین کا اپنا کوئی نقطہ نظر بیان کیا ہے نہ کسی خاص طریقے پر چلنے کی لوگوں کو دعوت دی ہے۔ جو کچھ بیان کیا قرآن و حدیث میں اس کی تفصیل یا اشارات موجود ہیں۔
اس کے باوجود اس کتاب کو ہدف بنایا گیا اور باقاعدہ پروپیگنڈا مہمیں چلائی گئیں تو اس کا سبب ہمارے معاشرے میں مذکورہ بالا اصولوں پر اختیار کی گئی متعصبانہ دینداری ہے۔ میں ان لوگوں پر کوئی تبصرہ کرکے اپنا اور قارئین کا وقت برباد نہیں کرنا چاہتا۔ اگر میرے بیان کردہ اصولوں کے بعد بھی کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہے تو وہ براہ راست مجھ سے کرلے۔ میں ذیل میں دو ایسے ہی سوالات اور ان کے جواب نقل کررہا ہوں۔ یہ سوالات کسی نہ کسی حوالے سے ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ پر لکھی گئی تنقیدوں کے پس منظر میں کئے گئے۔ لوگوں نے چونکہ براہ راست مجھ سے سوال کیے اس لیے میں نے ان کے تفصیلی جواب دیے۔ میرے جوابات سے قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کتنی سطحی نوعیت کی چیزیں تھیں جن کی بنیاد پر اس کتاب کے بارے میں اتنا غلیظ پروپیگنڈا کیا گیا۔
ناول کا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟
[یہ ایک طویل سوالنامہ تھا جس کے صرف پہلے سوال اور جواب کو یہاں نقل کیا جارہا ہے۔]
سوال: میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ نے حشر کے واقعات پر ایک ناول لکھا۔ آپ کی غیرت ایمانی نے یہ کیسے گوارا کرلیا کہ آپ واقعات محشر کو ناول جیسا گھٹیا، ذلیل، گندا عشق لڑانے والوں اور اسے پڑھ کر جنسی تلذذ حاصل کرنے والوں کی طرف مبذول کرانے والا نام دیں۔ آپ نے یہ کمینہ لفظ کس دیانت اور امانت کے بل پر اختیار کیا؟ (پ۔ن)
جواب: میرے محترم بھائی امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل و کرم فرمائے۔ میں آپ کے سوال کا جواب تفصیل سے دوں گا لیکن ابتد امیں صرف ایک چیز کی طرف توجہ دلانی ہے۔ وہ یہ کہ کسی سے بھی اختلاف رائے کرنا ہمارا حق ہے لیکن تہذیب و شائستگی کا جامہ اتار کر اس سطح پر اترنا کسی دیندار شخص کو زیب نہیں دیتا۔ آپ نے درجنوں سوالات پر مشتمل اس پورے سوال نامے میں جو زبان استعمال کی ہے وہ کسی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتی۔ کجا یہ کہ کوئی دیندار شخص وقولوا للناس حسنا(لوگوں سے اچھی بات کہو)، جادلھم بالتی ھی احسن (ان سے اچھے طریقے سے بحث کرو) اور والذین ھم عن اللغو معرضون (جنت میں وہ لوگ جائیں گے جو لغویات سے بچتے ہیں) کے صریح قرآنی احکام کی موجودگی میں اس نوعیت کی گفتگو کرے۔ میں تو آپ کی اس کرم فرمائی پر صبر کرکے اپنے پروردگار سے اجر کی امید رکھتا ہوں، آپ البتہ دیکھ لیجیے کہ اللہ کے حیا والے نیک بندے اور بندیاں جب آپ کے یہ الفاظ پڑھیں گے تو وہ آپ کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟
میں بہرحال آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل سے اس نفرت کو ختم کر دے۔ اس نفرت کے ساتھ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے تو آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ روز قیامت آپ کی کیسی رسوائی ہوگی۔ جب آپ کو یہ بتایا جائے گا کہ تم نے انتہائی ناقص علم اور کامل جذباتیت کا شکار ہوکر اس مقام پر کھڑے ہوکر گفتگو کی تھی جو صرف ہمارے محبوب نبی کا حق ہوتا ہے، مگر یہ کرتے ہوئے تمھیں ہمارے محبوب نبی کے اخلاق یاد نہیں رہے۔ میری مودبانہ درخواست ہے کہ ہوسکے تو کچھ وقت اللہ والوں کی صحبت میں گزاریے۔ ان کی صحبت سے انسان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ پیدا ہوتے ہیں۔
اصل سوال کا جواب دینے سے قبل یہ تمہیدی گفتگو مجھے اس لیے کرنی پڑی ہے کہ آپ کا پورا سوالنامہ آپ کی انہی صفات کا آئینہ دار ہے۔ اب آئیے آپ کے سوال کے جواب پر۔
میرے محترم بھائی پہلی بات یہ ہے کہ ناول نگاری اصناف سخن میں سے ایک صنف ہے۔ جو اعتراض ناول نگاری پر بنتا ہے وہ دیگر تمام اصناف سخن پر بنتا ہے۔ اس لیے کہ جن بیہودگیوں کا تذکرہ انتہائی بے باکی سے آپ نے فرما دیا ہے اور جنہیں بار بار دہرانے کی یہ عاجز خود میں ہمت نہیں پاتا، وہ صرف ناول نگاری کے ساتھ خاص نہیں، دیگر اصناف سخن سے بھی یہی خدمت لی جاتی رہی ہے۔ میں صرف شاعری کی مثال دوں گا۔ کون سی بے ہودگی ہے جس کے بیان کے لیے اشعار کو استعمال نہیں کیا گیا۔ میں زبان و بیان کا وہ بے باکانہ ذوق نہیں رکھتا جو آپ کے پاس ہے اور جس کا اظہار آپ کے سوالات سے ہوتا ہے۔ اس لیے ایک بڑے شاعر حالی کا ایک شعر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ اشعار میں کیا کچھ کہا جاتا رہا ہے۔ وہ مسدس میں اپنے زمانے کی شاعری پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں:
وہ شعر و قصائد کا ناپاک دفتر
عفوفت میں سنڈاس ہے جس سے بہتر
بیت الخلا کی گندگی جن اشعار سے بہتر ہو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے مضامین کیا ہوں گے۔ آپ چاہیں تو عرب جاہلیت کے دیوان پڑھ لیجیے۔ عربی نہیں آتی تو اردو شعراء کے ’’معاملہ بندی‘‘ پر مبنی اشعار پڑھ لیجیے۔ پھر یہ سوال جو مجھ سے کیا ہے وہ حالی سے کیجیے جنہوں نے اسی مسدس میں بے مثال حمد ونعت لکھی ہے۔
کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق
اس کے فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
یا یہ نعتیہ اشعار دیکھیے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
حالی ہی نہیں حضرت حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج کے دن تک کے تمام حمد اور نعت گو شاعر اسی اعتراض کی زد میں آجائیں گے۔ آپ کو ناول میں واقعات محشر بیان کرنے پر اعتراض ہے یہ شعرا تو اللہ کا ذکر، اس کی حمد اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اشعار کی شکل میں بیان کرتے ہیں۔ ’’اللہ کے ذکر سے بڑی کیا چیز ہوسکتی ہے‘‘،(العنکبوت 45:29)۔ مگر دیکھیے کہ ایک ختم نہ ہونے والی قطار ہے جو اس خدمت پر معمور ہے۔ اس لیے برادر محترم آپ نے جو سوال مجھ ناچیز سے کیا ہے کہ میں نے ایک گھٹیا، ذلیل، گندا عشق لڑانے والوں اور اسے پڑھ کر جنسی تلذذ حاصل کرنے والوں کی اصناف سخن میں واقعات حشر کیوں بیان کیے ہیں وہ مجھ سے بڑھ کر ان سب لوگوں پر وارد ہوجاتا ہے۔
اب آئیے خاص اس ناول نگاری کی طرف جس پر آپ کو بہت غصہ ہے۔ ناول نگاری ہے کیا؟ یہ اس قصہ گوئی، داستان اور حکایت کی جدید شکل ہے جو زمانہ قدیم سے کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے جس شخص کو ناول کے نام سے چڑ ہے وہ اسے قصہ، حکایت اور داستان سمجھ لے۔ میں کسی درجہ میں بھی اپنی کتاب کے موازنے کے لیے نہیں بلکہ یہ سمجھانے کے لیے کہ قصہ بیان کرنا ایک مثبت کام بھی ہوسکتا ہے، عرض کروں گا کہ قرآن مجید نے اپنے بیان کردہ واقعات کو ’’قصص‘‘ ہی قرار دیا ہے۔ قصہ بیان کرنا اپنی ذات میں کوئی برا کام ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ پروردگار عالم اپنی مقدس کتاب میں یہ کام کرتے۔
یہی وہ قصہ و حکایت ہے جو اب جدید شکل میں ناول کہلاتا ہے۔ یہ ایک صنف سخن ہے۔ میں نے یہ اس لیے اختیار کی کہ ناول کی تعریف میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ یہ فکشن ہوتا ہے۔ جبکہ قصہ، حکایت، داستان وغیرہ میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ وہ سچی بھی ہوسکتی ہے اور محض ایک بیان بھی۔ میں چونکہ اس معاملے میں بہت حساس تھا کہ لوگ مرکزی کردار اور اس کی داستان کو سچ نہ سمجھ بیٹھیں اس لیے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ یہ تاثر زائل ہوجائے۔ اس تحریر کو ناول اور ناول میں بھی کہانی کو خواب کی شکل میں لانے میں ایک اور احتیاط ملحوظ تھی۔ وہ ہمارے محدثین اور اصولیین کا مسلمہ اصول ہے کہ جب بات کہنے والا اپنی بات کے متعلق پہلے ہی کہہ دے کہ یہ موضوع یا فکشن ہے تو اس پر وہ اعتراضات کبھی پیدا نہیں ہوتے جو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے سے کسی چیز کو پیش کرنے سے پیدا ہوجاتے ہیں۔
مزید یہ کہ کسی اصلاحی کام کے لیے ناول کی صنف کا اختیار کرنے والا میں پہلا شخص نہیں ہوں۔ آپ کو شاید علم نہ ہو مگر نسیم حجازی، ڈپٹی نذیر احمد اور بہت سے دیگر مصنفین نے اس صنف کو مذہبی معتقدات، دینی تعلیمات، اخلاقی اصلاحات اورعہد رسالت ماب اور صحابہ کے واقعات کے بیان کے لیے استعمال کیا ہے۔ آج تک کسی نے یہ بے ہودہ سوال نہیں اٹھایا کہ انہوں نے اپنے کام کو ’’ناول جیسا گھٹیا، ذلیل، گندا عشق لڑانے والوں اور اسے پڑھ کر جنسی تلذذ حاصل کرنے والوں کی طرف مبذول کرانے والا نام‘‘ کیوں دیا۔
باقی اس طرح کی تمام اصناف سخن کے بارے میں قرآن مجید شاعروں کو موضوع بنا کر ایک فیصلہ کن بات اس طرح کہہ چکا ہے:
’’اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں؟ اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ بس وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے، جنھوں نے نیک اعمال کیے، جنھوں نے اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا اور جنھوں نے بدلہ لیا بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا‘‘،(الشعراء227-224:26)
فیصلہ میرا آپ کا نہیں چلے گا، قرآن مجید کا چلے گا۔ اس کا فیصلہ یہ ہے کہ اصناف سخن میں اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں بری بھی۔ ان کے بیان کرنے والے اچھے بھی ہوتے ہیں برے بھی۔ فیصلہ اس پر ہوگا کہ وہ کیا بیان کر رہے ہیں۔ بری بات زبان سے کی جائے، نثر میں ہو، نظم میں ہو، ناول میں ہو یا شعر میں بری ہے۔ اس کے برے ہونے سے زبان، نظم، نثر، ناول اور شعر برا نہیں ہوجاتا۔ اس لیے کہ ان سب چیزوں کے ذریعے سے اچھے کام بھی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ کا ذکر بھی جو سب سے بڑی چیز ہے۔
شہید کون ہے؟
ایک سوال شہید کے تصور کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ اس سوال کو چونکہ بعض تنقیدوں میں بڑے زورو شور سے اٹھایا گیا ہے اس لیے اس کا جواب یہاں نقل کیا جارہا ہے۔ سوال کرنے والے ایک محترم بھائی (م۔ح) کے الفاظ میں یہ سوال کچھ اس طرح ہے۔
’’ایک بات اگر آپ مناسب سمجھیں تو ذکر کیجئے گا کہ آپ نے ماشاء اللہ جنت میں جیسے صدیق، انبیاء وغیرہ کا انعامات کے حوالے سے جب زندگی شروع ہوگی میں کافی کرداروں کا تذکرہ کیا ہے لیکن شہداء کا ذکر نہیں ملتا جو فی سبیل اللہ قتال میں شہید ہوئے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے یا محض اتفاق ہے یا ہوسکتا ہے کہ میں ہی مِس کر گیا ہوں۔‘‘
جواب: لفظ شہید قرآن مجید میں تقریباً ساٹھ مقامات پر مختلف شکلوں میں آیا ہے۔ یہ لفظ ہر موقع پر اپنے لفظی مفہوم یعنی شاہد یا گواہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے سوائے ایک موقع کے جہاں یہ اطلاقی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ قرآن مجید میں اصطلاحی طور پر اس کا مطلب حق کی گواہی دینے والے لوگ ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں چونکہ قرآن مجید ایک اجنبی چیز ہے اس لیے لوگ سرے سے اس بات سے واقف ہی نہیں کہ لفظ شہید کی حقیقت کیا ہے۔ ورنہ یہی وہ منصب ہے جس پر صحابہ کرام کو فائز کیا گیا تھا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر گواہ ہوں اور وہ لوگوں پر‘‘(الحج22:78)۔ ’’یہی وہ کام ہے جو روزمرہ زندگی میں تمام اہل ایمان کو کرنا ہے‘‘(نساء4:135)۔ ’’یہی منصب ہے جو جنت کے چار کامیاب گروہوں میں سے تیسرا ہوگا یعنی انبیا صدیقین شہدا اور صالحین‘‘(نساء69:4)۔
ہمارے ہاں یہ لفظ جن معنوں میں معروف ہے یعنی مقتول فی سبیل اللہ وہ قرآن مجید میں ایک جگہ اطلاقی طور پر استعمال ہوا ہے یعنی سورہ آل عمران آیت 140 میں یہ بیان ہوا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جان دے کر بھی حق کی گواہی دی۔ یعنی اس لفظ کا اصل مطلب حق کی شہادت ہے اور جو لوگ یہ کام کرتے ہوئے اپنی جان بھی نچھاور کر دیں گویا کہ ان کے شہید (حق کے گواہ) ہونے میں اب کوئی شک اور گنجائش نہیں رہی۔ یہی وہ مفہوم ہے جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے اور جو ہمارے ہاں عوامی سطح پر زیادہ مشہور ہوچکا ہے۔ ورنہ دین پر تحقیقی نظر رکھنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ لفظ شہید کی اصل کیا ہے، قرآن کریم میں یہ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ احادیث میں یہ لفظ صرف مقتول فی سبیل اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے بلکہ متعدد روایات میں یہ اپنے اصل مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسے روایت میں آتا ہے کہ’’ا نتم شہداء اللہ فی الارض‘‘(صحیح الجامع رقم، 6728، 1490)۔ ’’یعنی تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو‘‘۔
میں نے اپنے ناول میں مرکزی کردار کو اسی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں کہ اس میں کسی شہید یا اس کے مقام کا ذکر نہیں ہے۔ رہا یہ سوال کہ میں نے خاص طور پر کسی مقتول فی سبیل اللہ کا ذکر کیوں نہیں کیا تو یہ تاثر اس پہلو سے درست نہیں کہ میں نے ایک مقام پر ایسے لوگوں کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ وہ بھی بڑے اعلیٰ اجر کے حقدار ہوئے ہیں، (صفحہ210)۔ اسی طرح دوسرے ناول ’’قسم اس وقت کی‘‘میں سیدنا یاسر اور سیدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شہادت اور ان کی عظمت کا بیان ہے۔
ویسے بھی یہ شہداء (مقتول فی سبیل اللہ) دراصل ان شہدا کے ذیل میں ہی آجاتے ہیں جو سورہ نساء میں بیان ہوئے ہیں۔ آپ غور فرمائیے کہ میں نے تو قرآن مجید کے اس طریقے کو اختیار کیا ہے جس میں مقتول فی سبیل اللہ کو بھی شہید کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس ناول کی تالیف کا اصل مقصد ہر ہر قسم کے نیکو کاروں کا تفصیلی بیان نہیں ہے۔ کئی قسم کے اعلیٰ درجے کے جنتی ہیں جن کا میں نے ذکر نہیں کیا مثلاً اس میں نفلی روزے داروں کا ذکر نہیں جن کے لیے ایک حدیث کے مطابق جنت کا ایک خاص دروازہ یعنی ریان وقف ہے، (بخاری رقم 1896)۔ اس کے علاوہ بھی روزے داروں کے غیر معمولی فضائل بیان ہوئے ہیں جیسے ’’الصوم لی و انا اجزی بہ‘‘،(بخاری رقم1894 مسلم2707)۔ یعنی ’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی عطا کروں گا‘‘۔ اعتراض کرنے والا ذہن تو اس پر بھی اعتراض کرسکتا ہے کہ ایسی عظیم فضیلت کے باوجود روزہ داروں کا خصوصی ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ لیکن ہر معقول آدمی سمجھ سکتا ہے کہ میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ہر قسم کی نیکی کرنے والوں کا ایک کہانی میں احاطہ کیا جائے۔
میرا اصل مقصد حشر کی منظر کشی تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اہل جنت کی تمام اقسام کو گنوا دیا جائے اور ان کے تفصیلی معاملات بیان کیے جائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ لوگوں نے اس اصل مقصد کو سمجھا اور ہزاروں لوگوں کی اللہ نے زندگیاں بدل دیں اور لاکھوں لوگوں تک اسلام کی بنیادی دعوت کا پیغام پہنچ گیا۔