نصرت دین ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ اللہ اور اللہ کے دین کے مددگار بن جائیں۔ پھر یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔ اس حوالے سے ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے میں مذہب کے نام پر کھڑے لوگ بارہا ایک دوسرے سے بالکل متضاد نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اور سب لوگ اپنے اپنے لیے نصرت الٰہی کے دعوے بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ کیا ضابطہ ہے جس کی بنیاد پر یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ کس شخص یا گروہ کو نصرت الٰہی مل رہی ہے اور کون ہے جسے اپنی گمراہیوں کو پھیلانے کے لیے ڈھیل دی جارہی ہے۔
اس سوال کا جواب قرآن مجید اس طرح دیتا ہے کہ اس نے جس جگہ نصرت دین کے لیے اٹھنے کی دعوت دی ہے وہاں اس کے مخاطب وہ صحابہ کرام ہیں جو اپنے تعصبات سے اوپر اٹھ کر ایمان لائے تھے۔ وہ اپنے کسی فرقے، آبائی مذہب یا تعصب کے اسیر نہ تھے۔ حق ان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ چنانچہ نصرت دین کے حکم کے مخاطب ہی وہی لوگ تھے اور نصرت الٰہی کا ضابطہ بھی ان کے لیے ہی تھا۔
یہی وہ معیار ہے جس پر آج یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا کون سا گروہ ہے جو نصرت الٰہی کا حقدار ہے اور کون ہے جسے ڈھیل دی جارہی ہے۔ نصرت الٰہی کے حقدار وہی لوگ ہیں جن کے لیے حق سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جو حق کو اپنی ذات، فرقہ اور اپنے عالم کے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے ہر تعصب سے اوپر اٹھ کر سچائی کو تلاش کرتے ہیں۔ کوئی غلطی واضح کرے تو جواب دینے کی نفسیات کے بجائے خود پر تنقید کو سنتے اور اصلاح کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اس دنیا میں نصرت الٰہی کے حقدار اور آخرت میں خدا کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔