حکمتِ الٰہی ۔ ملک جہانگیر اقبال
کچھ دن قبل اک ڈاکیومنٹری دیکھی جس کا نام "The nova effect” تھا۔ یہ ڈاکیومنٹری ایک نہایت دلچسپ کہانی پہ مشتمل تھی، تو کہانی کچھ یوں ہے کہ ایرک نامی شخص اپنے کتے کو (کتے کا نام nova ہے) واک پہ لے کر جاتا ہے۔ دوران چہل قدمی نووا کو ایک خرگوش بھاگتا دکھائی دیتا ہے اور شومئی قسمت کہ عین اسی وقت اس شخص کی رسی پہ گرفت ڈھیلی پڑتی ہے اور یوں نووا سرپٹ خرگوش کے پیچھے دوڑ پڑتا ہے۔ کچھ دیر تک ایرک نووا کا پیچھا کرتا ہے اور پھر تھک ہار کر گھر واپس لوٹ جاتا ہے۔ دوسری جانب نووا بھی بھاگتے ہوئے بہت دور نکل جاتا ہے اور یوں گھر واپسی کا رستہ بھول جاتا ہے۔
گھر پہنچ کر ایرک خود کو بہت کوستا ہے اور اس وقت کو منحوس گردانتا ہے جب اس نے رسی ڈھیلی کی۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر رسی ڈھیلی نہ ہوتی تو شاید نووا اس وقت میرے ساتھ ہوتا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد دروازے کی گھنٹی بجنے پہ جب ایرک دروازہ کھولتا ہے تو دروازے پہ ایک لڑکی نووا کی رسی تھامے کھڑی ہوتی ہے۔ وہ ایرک کو بتاتی ہے کہ اسے نووا بھٹکتا ہوا ملا تو اسے گھر لے گئی اور پھر پٹے میں موجود نیم ٹیگ پہ لکھے پتے کی بدولت یہاں تک پہنچ گئی۔
ایرک نووا کو واپس پاکر بہت خوش ہوتا ہے اور یوں لڑکی سے بھی اس کی دوستی ہوجاتی ہے۔ اب ایرک لڑکی سے اکثر ملنے لگتا ہے اور یوں ان دونوں کو اک دوجے سے محبت ہوجاتی ہے۔ پھر ایرک سوچتا ہے کہ کتنا اچھا ہوا جو اس دن رسی ہاتھ سے چھوٹی اور خدا کا شکر ہے کہ کتنا خوش قسمت وقت تھا کہ نووا اسی لڑکی کو ملا اور یوں مجھے میری محبت ملی۔
خیر شادی کی تاریخ طے پاجاتی ہے اور ایک روز جب وہ اس لڑکی سے ملنے جارہا ہوتا ہے تو ٹریفک لائٹ سرخ ہوجانے پہ اسے رکنا پڑ جاتا ہے۔ جونہی سبز بتی جلتی ہے ایرک گاڑی آگے بڑھا دیتا ہے پر اسی اثنا میں مخالف رخ سے ایک تیز رفتار گاڑی بے قابو ہوکر اس کی گاڑی سے ٹکرا جاتی ہے اور یوں دو تین قلابازیاں کھاتے ہوئے اس کی گاڑی فٹ پاتھ پہ گرجاتی ہے۔ ایرک کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں ڈاکٹر ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ ایرک کے دماغ کا فوری سی ٹی سکین و ایم آر آئی وغیرہ کیا جائے جبکہ سخت تکلیف کی حالت میں یہ سب سنتے ہوئے ایرک سوچ رہا ہوتا ہے کہ کتنا منحوس وقت تھا جب میں گھر سے نکلا اور اس گاڑی کو بھی اسی وقت بے قابو ہونا تھا؟ کاش میں گھر سے نکلا ہی نہ ہوتا۔
خیر ٹیسٹ کی رپورٹس آتی ہیں تو ڈاکٹر اسے بتاتے ہیں کہ ایک بری خبر یہ ہے کہ تمہارے دماغ میں گلائیوما (ٹیومر) ہے جبکہ اچھی خبر یہ ہے کہ تمہارے دماغ میں گلائیوما (ٹیومر) ہے۔ ایرک کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ بیک وقت ایک ہی خبر اچھی اور بری کیسے ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹر اسے بتاتا ہے کہ ایکسیڈنٹ سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوا پر ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ دماغ کے ٹیسٹ کے دوران ٹیومر کا معلوم پڑگیا جو ابھی ابتدائی سٹیج پہ تھا وگرنہ جب اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے تم بہت خوش نصیب ہو۔
یہ سن کر ایرک سوچتا ہے کہ کتنا اچھا وقت تھا جب میں گھر سے نکلا اور کتنا خوش نصیب بھی کہ عین ٹھیک وقت پہ وہ گاڑی مجھ سے ٹکرائی ورنہ مجھے اس ٹیومرکی بابت معلوم کیسے ہوتا؟
یہ ایک اچھی ڈاکیومنٹری تھی۔ پر اس ڈاکیومنٹری کے آخری میں مصنف نے جن تاثرات کا اظہار کیا اس سے اندازہ ہوا کہ اس کو لکھنے والا الجھا ہوا تھا کہ کیسے کوئی طاقت ہے جو یہ سب کر رہی ہے۔ کائنات یا قدرت کے اصول کس طرح کام کرتے ہیں؟ کیسے کوئی برا واقعہ کسی اچھے واقعے کا موجب بن جاتا ہے یا کس طرح کوئی اچھا واقعہ کسی حادثے کی وجہ بن جاتا ہے؟ ڈاکیومنٹری ختم ہوگئی پر میری الجھن بڑھ گئی۔ ایک دو روز تو اس پہ سوچتا رہا اور پھر دیگر مصروفیات نے اس ڈاکیومنٹری سے توجہ تو ہٹا دی پر دماغ میں ایک خلش ضرور پیدا ہوگئی۔
اب یہ آج صبح کا واقعہ ہے کہ فجر کے بعد بھی جب نیند کا نام و نشان نہ ملا تو لان میں جا کر بیٹھ گیا۔ میرے بڑے بھائی کو مرغیاں پالنے کا شوق ہے لہٰذا وہ صبح سویرے ہی سب مرغے مرغیوں کو کھول کر دانہ وغیرہ ڈال دیتے ہیں۔ آج انہیں میں صبح سویرے دکھائی دیا تو مجھے بھی اپنا ہاتھ بٹوانے کے لیے ساتھ شامل کرلیا۔
ہمارے گھر کے عقبی حصے میں مرغیوں اور ان کے بچوں کے لیے بارہ پنجرے ترتیب سے بنے ہوئے ہیں۔ دانہ ڈالنے کے بعد ماسوائے ایک کے باقی تمام مرغیوں کو وہیں کھلا چھوڑ دیا جبکہ ایک مرغی جس کے ساتھ اس کے بچے بھی تھے اسے دوبارہ پنجرے میں بند کرنا تھا۔ بڑے بھائی نے سب سے آخر میں رکھے پنجرے میں مرغی اور چوزوں کے لیے مخصوص دانہ ڈالا اور پانی رکھا اور مجھے مرغی کو پنجرے میں بند کرنے کا کہا۔
ایک تو مجھے مرغے مرغیاں پالنے کا ذرا شوق نہیں اور پھر مجھے انہیں ہانکنا بھی نہیں آتا۔ خیر بھائی کا حکم تھا لہٰذا بجا آوری ضروری تھی۔لہٰذا اپنے تئیں کوشش کرنے لگا پر وہ نالائق مرغی ہر بار غلط پنجرے میں جا گھستی جب اسے پنجرے سے باہر نکالتا تو چیختے چلاتے باہر آتی اور یوں پندرہ بیس منٹ کی مشقت کی بدولت مرغی اور چوزے در در کے پنجروں کی خاک چھاننے کے بعد اپنے مخصوص پنجرے تک پہنچ ہی گئے۔ پنجرہ بند کرتے ہوئے بھائی سے مخاطب ہو کر کہا ”یار کتنی بیوقوف مرغی ہے۔ اس کی تمام خوراک و سہولیات اس پنجرے میں موجود ہیں پر یہ نالائق بار بار غلط پنجرے میں جا گھستی تھی اور نکالنے پہ ایسا شور مچاتی جیسے اس پہ نجانے کتنا ظلم کیا جارہا ہو، دل کیا کہ اسے دوسرے پنجرے میں ہی رہنے دوں۔ جب بھوک لگتی تو اسے قدر آتی۔“
بھائی صاحب اپنے چھوٹے بھائی کو صبح صبح خواری سے چڑچڑا ہوا دیکھ کر مسکرا دیے اور کہا ”یار یہ نادان پرندہ ہے اسے اپنے بھلے برے کا نہیں معلوم پر ہمیں تو معلوم ہے نا؟ یہ بھلے چیخے چلائے پر ہمارا کام ہے کہ اسے اس جگہ رکھیں جہاں اس کے لیے آسانیاں ہوں ورنہ ہماری عقلی برتری کا کیا فائدہ؟“ بھائی تو یہ کہہ کر چلے گئے پر میری الجھن سلجھا گئے۔
نووا ایفیکٹ میں وہ ڈاکیومنٹری لکھنے والا جس الجھن کا شکار ہوا تھا میں اسے سلجھا چکا تھا۔ جس عمل کو وہ کائناتی راز اور جس کی وقوع پذیری پہ وہ حیران اور ممکنہ ردعمل پہ کنفیوژن کا شکار تھا وہ تو میرے بالکل سامنے ہی تھا۔
جسے وہ نووا ایفیکٹ کہہ رہا تھا اسے ہم بچپن سے ہی ”اللہ کی حکمت“ کے نام سے سنتے آئے ہیں۔ جس ردعمل پہ وہ کنفیوز تھا کہ کیا ری ایکشن دے اس عمل پہ اللہ ہمیں ”صبر و شکر“ کا حکم ڈیڑھ ہزار سال قبل دے چکا۔ پر یہ ڈاکیومنٹری دیکھنے کے بعد مجھے صبر و شکر کی تعریف ٹھیک طرح سے سمجھ آگئی۔
آج سے پہلے صبر و شکر پہ بہت پریشان ہوا کرتا تھا کہ ایک شخص حالت نقصان میں صبر تو کرسکتا ہے پر شکر کیسے ممکن؟ مثلاً ایک شخص مجھے دھوکا دے گیا۔ اس عمل پہ میں صبر کرسکتا ہوں پر شکر کیسے ممکن؟ مجھے لاکھوں کا نقصان ہو تو میں صبر کرسکتا ہوں پر اس پہ شکر کیسے اور کیونکر ممکن؟ کیا محض زبان سے شکر کا لفظ کہہ دینے پہ شکر کی تعریف پوری ہوگئی؟ نہیں ہرگز نہیں۔
پر آج صبر و شکر کا مطلب سمجھ آگیا کہ ہماری ہر آزمائش ہمیں مقام شکر تک لانے کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم صبر کریں تو دوہرے سرخرو ہوں۔ اب مرغی کی ہی مثال لیں کہ وہ ہر بار اپنے تئیں تو اپنے ٹھکانے پہ جاتی پر میں ڈنڈی سے ٹھونک کر اسے باہر نکال دیتا جس پہ وہ چیختی چلاتی۔ شاید اسے میں ظالم بھی لگا ہوں گا پر میں اسے وہاں لانا چاہتا تھا جہاں اس کے لیے تمام سہولیات موجود تھیں اور یقیناً جب اپنے پنجرے میں پہنچ کر اسے خوراک اور پانی ملا ہوگا تو وہ خوش ہوئی ہوگی۔
ڈاکیومنٹری میں ”ایرک“ اگر غور کرتا تو کتے کے گم ہونے کا دکھ دراصل آخر میں اس کی زندگی بچانے کے کام آیا۔ اگر کتا نہ گم ہوتا تو اسے وہ لڑکی نہ ملتی، لڑکی نہ ملتی تو وہ اس سڑک پہ نہ ہوتا، سڑک پہ نہ ہوتا تو اس کا ایکسیڈنٹ نہ ہوتا، ایکسیڈنٹ نہ ہوتا تو ٹیومر کا پتہ نہ چلتا اور یوں جس دن اس کی شادی ہو رہی تھی شاید اس کا جنازہ ہو رہا ہوتا۔
ٹھیک اسی طرح جب اللہ پاک ہمیں کسی شے سے دور کرتا ہے تو ہم اس کی حکمت یا بقول انگریز مصنف ”نووا ایفیکٹ“ سمجھے بنا رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دوران خدا ہمیں ظالم بھی لگتا ہے اور اس وقت تک ظالم لگتا رہتا ہے جب تک وہ ہمیں اس سے بہت بہتر عطا نہیں کر دیتا۔ لہٰذا خدا کی حکمت جسے آزمائش بھی کہا گیا ہے اس پہ محض صبر کا حکم دیا گیا باقی مقام شکر تک یہ حکمت ضرور لے کر جاتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ اگر آج آپ کامیاب اور خوش ہیں تو ذرا ماضی میں جھانکیں تو آپ کومعلوم ہوگا کہ اس کامیابی و خوشی کی منزل تب ممکن ہوئی جب فلاں فلاں بظاہر قریبی لوگ آپ کو چھوڑ گئے یا کوئی مالی نقصان ہوا جس نے آپ کو مختلف طرح سے سوچنے پہ مجبور کیا اور یوں آپ کامیابی تک پہنچے۔ ٹھیک اسی طرح اگر اس وقت آپ تکلیف میں ہیں یا لگتا ہے کہ ناکام ہوچکے تو ہمت نہ ہاریں۔ صبر کریں اور اللہ کی حکمت پہ بھروسا کرتے ہوئے چلتے رہیں۔ اس آزمائش والے وقت میں ہمت نہ ہاریں کہ جلد ہی آپ مقام شکر پہ کھڑے ہوں گے، ان شاء اللہ۔