زندگی کی نشانیاں ۔ ابویحییٰ
ڈاکٹر مظہر نے میرے سامنے وزیٹنگ کارڈ رکھ دیا۔ اس پر نام کے نیچے ’’ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس‘‘ کا عہدہ درج تھا۔ یہ ان صاحب کا وزیٹنگ کارڈ تھا جن کا موتیا کا آپریشن ڈاکٹر مظہر نے حال ہی میں کیا تھا اور جن کا تذکرہ ڈاکٹر صاحب بڑے جوش کے ساتھ مجھ سے کر رہے تھے۔
ڈاکٹر مظہر کا آئی کلینک میرے پڑوس میں واقع ہے۔ وہ اپنی شخصیت اور مقصد دونوں اعتبار سے معاشرے کے قابل فخر اور قابل تقلید شخص ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد عام آدمی تک اعلیٰ ترین علاج کی سہولت بہت کم نرخ پر پہنچانا ہے۔ انہوں نے آنکھوں کا سرجن ہونے کے ناطے اسی شعبے سے آغاز کیا۔ بعض صاحب دل لوگوں نے ان کی مدد کا فیصلہ کیا یوں وہ کلینک وجود میں آیا جہاں ایک عام آدمی کو بہت کم فیس پر اعلیٰ ترین علاج کی سہولت مہیا کی جاتی ہے اور جب کبھی کوئی ضرورت مند شخص ان کے کلینک آتا ہے تو وہ بھی مایوس نہیں لوٹتا۔ اس کے لیے بھی، صاحب ثروت افراد کے تعاون سے، مفت علاج کا بندوبست کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور کہنے لگے کہ جب میں نے ان صاحب کو موتیا کے آپریشن کے لیے سات ہزار کی رقم بتائی تو ان کے چہرے پر ایک سوالیہ نشان پیدا ہوا۔ یہ سوالیہ نشان ہمارے ہاں ہر اس سفید پوش شخص کے چہرے پر پیدا ہوجاتا ہے جسے قدرت بیماری کی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔ میں نے اس سوال کو پڑھ لیا اور ان کا آپریشن بغیر کسی فیس کے کر دیا۔ لیکن انکم ٹیکس کے محکمے کا ڈپٹی کمشنر عہدے کا آدمی، جو رزق حرام کے گندے نالے سے نہا کر، امریکہ میں علاج کرانے کی استعداد رکھ سکتا تھا، اس کا یوں سفید پوش ہونا، اس کے بے داغ ہونے کی نشانی ہے۔
میں نے کارڈ دوبارہ دیکھا اور سوچا کہ ایسے صاحب کردار انکم ٹیکس افسر کا وجود معاشرے کے زندہ ہونے کی نشانی ہے اور ان کا مفت علاج ہونا بھی معاشرے کے زندہ ہونے کی ایک نشانی ہے۔ جب تک زندگی کی یہ نشانیاں باقی ہیں، ہمارا معاشرہ سارے برے لوگوں کے باجود زندہ رہے گا۔