Take a fresh look at your lifestyle.

زمین کا بادشاہ ۔ ابویحییٰ

کرہ ارض ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آیا اور اس پر زندگی کے پہلے آثار پونے چار ارب سال قبل کے ملتے ہیں۔ اس کے بعد زندگی آگے بڑھی اور رفتہ رفتہ وہ اتنی پھیلی کے ستاسی لاکھ اقسام کی انواع دھرتی پر پھیل گئیں۔ انسان سے ملتے جلتے حیوانات ساٹھ سے ستر لاکھ سال قبل پہلے دھرتی پر نمودار ہوئے۔ جبکہ موجودہ انسان جس کا حیوانی نام ہوموسیپین ہے، تقریباً تین لاکھ سال قبل دھرتی پر ظاہر ہوا۔

حیاتیاتی کلینڈر کا آغاز اگر پونے چار ارب سال پہلے ہوا ہے تو اس لحاظ سے اس کلینڈر کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو رات گیارہ بجے کے بعد افریقہ میں ہوموسیپین کا ظہور ہوا۔اس واقعے کے تقریباً دو لاکھ سال بعد ہوموسیپین یا انسان افریقہ سے نکلے اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس دنیا میں زندگی کی 87 لاکھ انواع پونے چار ارب سال سے موجود تھیں وہاں یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہوموسیپین سب سے آخر میں ظاہر ہوئے اور پھر پوری دنیا پر چھا گئے۔ اس سوال کا ایک جواب قرآن مجید دیتا ہے اور دوسرا جواب سیکولر ماہرین دیتے ہیں۔ پہلے ہم قرآن مجید کا جواب نقل کریں گے اور پھر سیکولر ماہرین کا۔

قرآن مجید نے انسان کی پیدائش کو اپنا خصوصی موضوع بنایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کا آغاز ابتدا میں مٹی سے کیا۔ ایک طویل عرصے سے انسان براہ راست مٹی سے پیدا کیے جاتے رہے۔ رفتہ رفتہ ان کے اندر جنسی تعلق کی صلاحیت نے جنم لیا۔ اس کے بعد مزید انسان اسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ اس عمل پر بھی ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ مختلف قسم کے انسانوں کے باہمی ملاپ سے انسانوں کی صلاحیتوں میں نکھار آنا شروع ہوا۔ قرآن اس عرصہ کو تسویہ کا عرصہ کہتا ہے۔ جب یہ تسویہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ وہ قدیم انسان موجودہ انسان کی ہیئت پر آگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک مرد اور عورت کے اندر روح پھونک کر ان میں دو غیر معمولی مادی صلاحیتیں پیدا کر دیں۔

پہلی یہ کہ اس انسان کو آنکھ و کان کے ساتھ وہ دل و دماغ بھی دے دیا گیا جو مادی حقائق سے بلند تصورات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس صلاحیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان اخلاقی اقدار جیسی غیر مادی چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہوگیا اور اس کے ساتھ مادی معاملات میں بھی ہر طرح کے حالات کو سمجھ کر موقع کے لحاظ سے منصوبہ بندی کرنے کے قابل ہوگیا۔ اس کے ساتھ دوسرا وصف انسانوں کو یہ دیا گیا کہ نطق و گویائی کا وہ ملکہ دیا گیا جس کی مددسے وہ ان تصورات، خیالات اور منصوبوں کو دوسرے انسانوں تک منتقل کرنے اور ان کی بات سمجھنے کے قابل ہوگیا۔

سیکولر ماہرین کے نزدیک انسان ارتقا کی پیداوار ہے۔ اس دعویٰ کا زیادہ تر انحصار انسانوں سے ملتے جلتے وہ فوسلز ہیں جو موجودہ انسان سے پہلے کے زمانے کے ہیں۔ تاہم قرآن مجید کے بیان کی روشنی میں دیکھیے تو انتھراپولوجی کے ماہرین جن فوسلز کو بندروں کی نسل کی باقیات سمجھتے ہیں وہ دراصل ان قدیم انسانوں کے ڈھانچے ہیں جو قرآن کے بیان کے مطابق براہ راست مٹی سے پیدا کیے جارہے تھے اور پھر باہمی ملاپ سے جن کی صلاحیتیں اور شکل و صورت نکھرتی چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت نے ایک لاکھ سال قبل یا اس کے لگ بھگ ہوموسیپین میں سے دو کو الگ کرکے ان میں روح پھونکی اور ان کو انسان بنا کر عقلی تصورات کے تجزیہ و تحلیل اور نطق و بیان کی مذکورہ بالا صلاحیت عطا کی۔ غالباً اسی واقعے کے بعد اور اسی استعداد کی بنا پر ان کی افریقہ سے باہر ہجرت اور دنیا پر غلبہ کا عمل شروع ہوا۔

دوسری طرف ماہرین انسان کے غلبے کا راز جس چیز کو قرار دیتے ہیں وہ بڑی تعداد میں اور ہر طرح کے حالات میں مل کر کام کرنے کی استعداد ہے۔ انسانوں کی بڑی تعداد اور ہر طرح کے حالات میں مل جل کر کام کرنے کی اس استعداد کی وجہ وہی دو صلاحیتیں ہیں جو قرآن مجید نے بیان کی ہیں یعنی تصور اور بیان کی صلاحیت۔ باقی حیوانات میں یہ دو صلاحیتیں کلی یا جزوی طور پر نہیں پائی جاتیں۔

مثال کے طور کچھ انواع بڑی تعداد میں مل کر کام کرسکتی ہیں جیسے شہد کی مکھی یا چیونٹی وغیرہ۔ مگر یہ مل جل کر کچھ متعین کام ہی کرسکتے ہیں۔ ان میں تصور کی صلاحیت نہیں جو انسان میں ہے اور جو ہر طرح کے حالات میں ایک نیا منصوبہ بنا سکتا ہے اور دوسروں کو ساتھ دینے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح کچھ دوسرے حیوانات جیسے چمپینزی وغیرہ نئے حالات میں ایک نئی حکمت عملی بنا سکتے ہیں، مگر ان میں انسانوں کی طرح نطق و بیان کی وہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایک بڑا منصوبہ بنا کر ایک پورے گروہ کو اس کے درست ہونے پر قائل کرسکیں۔ یوں سیکڑوں اور ہزاروں میں ہونے کے باوجود وہ اس بڑی تعداد میں مل کر انسانوں کی طرح کام نہیں کرسکتے۔

اس کو مزید وضاحت سے یوں سمجھیے کہ ایک شہد کی مکھی انسان کو کاٹ کر سخت اذیت میں مبتلا کرسکتی ہے۔ ایک سانپ انسان کو ڈس کر مار سکتا ہے۔ ایک ریچھ ایک تنہا انسان کے مقابلے میں ایک ویران جزیرے میں زندہ رہنے کا زیادہ امکان رکھتا ہے۔ مگر جب کئی انسان مل جائیں تو شہد کی مکھی ہو یا سانپ ہو۔ شیر یا ریچھ ہو، انسان کی مجموعی طاقت کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔

چنانچہ ماہرین انسانوں سے متعلق جن حقائق تک پہنچے ہیں، وہ قرآن مجید کے بیانات کی نفی پر نہیں بلکہ تائید میں کھڑے ہیں۔ انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل اور معلومات حاصل کرکے ان کی بنیاد پر نئے عقلی تصورات قائم کرنے کی صلاحیت کا ذکر سورۃ السجدہ(32) آیات 7 تا 9 میں اس طرح کیا گیا ہے:
’’وہی ہے جس نے جو چیز بھی بنائی ہے، خوب ہی بنائی ہے۔ انسان کی تخلیق کا آغاز اُس نے مٹی سے کیا۔ پھر اُس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی۔ پھر اُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور تمھارے (سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے) آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے) دل بنا دیے تم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔‘‘(السجدہ32: 9 -7)

بیان کی صلاحیت کو سورہ رحمٰن میں یوں بیان کیا ہے:
’’اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اُسے نطق و بیان کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔‘‘(الرحمٰن55:3-4)

ابتدائی دو انسانوں یعنی آدم و حوا کا ذکر تو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ہوا ہے جیسے سورہ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ طہ وغیرہ۔ ان میں سے سورہ طہ میں ان کا ذکر اس طرح بیان ہوا ہے:
’’ہم نے کہا کہ اے آدم، یہ تمھارا اور تمھاری بیوی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو اِس باغ سے نکلوا دے، پھر تم محروم ہو کر رہ جاؤ۔ یہاں تو تمھیں یہ آسایش ہے کہ نہ اِس میں بھوکے رہتے ہو نہ لباس کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ تم کو اِس میں پیاس ستاتی ہے نہ دھوپ لگتی ہے۔ لیکن شیطان نے اُس کو ورغلایا۔ اُس نے کہا: آدم، میں تم کو وہ درخت بتاؤں جس میں ہمیشہ کی زندگی ہے اور اُس بادشاہی کا پتا دوں جس پر کبھی زوال نہ آئے گا؟ سو (اُس کی ترغیب سے آدم و حوا)، دونوں نے اُس درخت کا پھل کھا لیا تو اُن کی پردے کی چیزیں اُن پر ظاہر ہوگئیں اور (اُن کو چھپانے کے لیے) وہ دونوں اپنے اوپر اُس باغ کے پتے گانٹھنے لگے۔ اِس طرح آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور راہ راست سے بھٹک گیا۔ پھر اُس کے پروردگار نے اُس کو برگزیدہ کیا۔ سو اپنی عنایت سے اُس کی توبہ قبول فرمائی اور اُسے راستہ دکھا دیا‘‘،(طہ20: 122-117)۔

سورہ سجدہ میں جس تصور اور سورہ رحمان میں بیان کی جس صلاحیت کا ذکر عمومی طور پر کیا گیا ہے، سورہ طہ کے اس مقام پر حضرت آدم و حوا اللہ تعالیٰ اور شیطان کے ساتھ اپنی گفتگو میں اس کا مظاہرہ پورے طور پر کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جسم چھپانے کی خالص انسانی قدر کا ذکر بھی ان آیات میں موجود ہے۔

سورہ اعراف (7: 10) میں ان صلاحیتوں کا نتیجہ یوں بیان کیا ہے:
’’ہم نے زمین میں تمھیں اقتدار عطا فرمایا اور تمھارے لیے اِس میں معاش کی راہیں کھول دی ہیں، پر تم کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘

یعنی جو کام ستاسی لاکھ انواع پونے چار ارب سال میں نہ کرسکیں اور ممکنہ طور پر ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں پائے جانے والے قدیم انسان جو کام دو لاکھ تیس ہزار سال میں نہ کرسکے، وہ آدم و حوا اور ان کی اولاد نے صرف چند ہزار برس میں کر دکھایا۔ یہ نتیجہ انسانوں کی انھی دو صلاحیتوں کی بنا پر نکلا۔

زمین کا بادشاہ بننے کے بعد اب انسان کے پاس ایک نیا موقع ہے۔ وہ یہ کہ وہ پوری کائنات کا بادشاہ بن جائے۔ یہ موقع انسان کو جنت کی بادشاہی میں دیا جائے گا۔ مگر یہ موقع انسانوں میں سے صرف انھی انسانوں کو ملے گا جو اپنے تصور کی آنکھ سے غیبی حقائق یعنی خدا و آخرت کو دریافت کرلیں۔ جو اپنی نطق و بیان کو خدا کی حمد اور اپنے وجود کو اس کی شکر گزاری کے لیے وقف کر دیں۔ جنت ایسے ہی لوگوں کا بدلہ ہے۔