ظفر اور انجم ۔ ابویحییٰ
ظفر ایک اوسط ذہانت کا حامل نوجوان تھا۔ وہ ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوا۔ ماں باپ نے اوسط درجے کے تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائی۔ اس کے ماں باپ میں البتہ ایک خوبی کمال کی تھی۔ انھوں نے ظفر کی تربیت کو مسئلہ بنالیا تھا۔ خاص کر دو عادتوں کو انھوں نے ظفر میں بہت پختہ کر دیا تھا۔ ایک یہ کہ زندگی کے ہر واقعے کو مثبت انداز سے دیکھنا ہے۔ دوسرے یہ کہ زندگی میں ہر ترقی اور کامیابی محنت، مستقل مزاجی اور سخت جدوجہد کے بعد ملا کرتی ہے۔
ظفر ابھی زیر تعلیم تھا کہ اس کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اس کی ماں نے اس سے کہا: بیٹا یہ بظاہر ایک مسئلہ لگ رہا ہے مگر درحقیقت یہ ایک موقع ہے۔ قدرت نے تمھیں ایک موقع دیا ہے کہ تم وقت سے پہلے پختگی کو پہنچ جاؤ۔ تم اپنی پختگی کی بنیاد پر کم وقت میں زیادہ اور دیر تک رہنے والی ترقی حاصل کرو۔ ظفر نے ماں کی بات گرہ سے باندھ لی۔ تعلیم کے ساتھ ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ کچھ عرصے بعد ایک پارٹ ٹائم جاب شروع کر دی۔ کئی برس اسی طرح گزرے۔ تعلیم ختم ہوئی تو جب اس کے دوسرے دوست ملازمتیں ڈھونڈ رہے تھے وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک بہت بہتر ملازمت حاصل کرچکا تھا۔ کچھ عرصہ بعد دوران ملازمت اس نے شام کے اوقات میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اور کچھ ہی عرصے میں ایک اور کمپنی میں اعلیٰ مینجمنٹ کی سطح کی ملازمت حاصل کرلی۔
کچھ ہی عرصے میں اس کی والدہ نے اس کی شادی بہت اچھی جگہ کر دی۔ مگر اس کی بیوی انجم کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جہاں بچوں کو بہت اعلیٰ تعلیم دلوائی گئی تھی مگر اس کے ساتھ ہی بچوں کی pampering کرنا، ان کے ناز و نخرے اٹھانا پرورش کا حصہ تھا۔ چنانچہ انجم کی توجہ ہمیشہ اسی بات پر رہتی تھی کہ اس کے پاس کیا نہیں ہے اور دوسروں کے پاس کیا ہے۔ چنانچہ جلد ہی مطالبات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسے اپنی ساس کا وجود بھی بوجھ لگتا تھا۔ ظفر نے ابتدا میں کچھ مزاحمت کی تو جھگڑے شروع ہوگئے۔ اب یا تو ظفر ہمیشہ کے لیے ہتھیار ڈال دیتا یا پھر بیوی کے رنگ میں رنگ جاتا۔
ایسے میں اس کی ماں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور کہا: بیٹا زندگی نے تمھیں ایک اور موقع دیا ہے۔ اس سے پہلے تم نے حالات کو شکست دے کر فتح پانا سیکھی تھی۔ اب انسانوں کو جیت کر زندگی میں ایک اور فتح حاصل کرو۔ یہ جنگ جیت لوگے تو تمھاری اولاد بہت اچھی انسان بنے گی۔ قدرت نے تمھیں موقع دیا ہے کہ تم معاشرے کو اعلیٰ انسان فراہم کرو۔
ماں کی بات ظفر کے دل پر اثر کرگئی۔ گرچہ اس کے لیے یہ صورتحال بہت نازک تھی، مگر اس نے حکمت سے اس معاملے سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے فوری طور پر جھگڑوں سے بچنے کے لیے بیوی کی ہر بات کو منع کرنے کے بجائے کچھ قابل قبول مطالبات پورے کر دیے۔ ساتھ ہی اس نے غور کیا تو اسے معلوم ہوگیا کہ اس صورتحال کا سبب انجم کی تربیت اور اس کا خاندان ہے۔ انجم کے خاندان میں صورتحال یہ تھی کہ اس کے تین بھائی تھے۔ تینوں خوشحال تھے۔ مگر خوش نہیں تھے۔ تینوں کی بیویاں بھی انھی کے مزاج کی تھیں۔ ان میں آپس میں جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ مقابلے بازی کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ہر کوئی ماں باپ سے فائدے اٹھانا چاہتا تھا مگر ذمہ داری اٹھانے کو کوئی تیار نہ تھا۔
اسے اندازہ ہوگیا کہ میکے کی میراث سے جان چھڑائے بغیر انجم کی اصلاح بہت مشکل ہے۔ مگر ظفر جلد باز نہیں تھا۔ وہ بیوی کو توجہ دلانے کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا رہا کہ اس کی بیوی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے، اس کے لیے عذاب نہ بنے۔
کچھ ہی عرصے بعد ظفر کی ساس بیمار ہوگئیں۔ مگر ان کے ہر بیٹے اور بہو نے ذمہ داری اٹھانے کے بجائے دوسرے کے سر ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ یوں بڑھاپے میں ان کی مٹی پلید ہوگئی۔ ایسے میں ظفر انجم سے کہہ کر اپنی ساس کو اپنے گھر لے آیا۔ انجم تو خیر بیٹی تھی، مگر ظفر نے بھی بیٹے سے بڑھ کر ہر طرح جان ومال سے ان کا خیال کیا۔ ان پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب انجم نے اپنے شوہر کو خواہشات پوری کرنے والی مشین کے بجائے ایک اعلیٰ انسان کے روپ میں دریافت کیا۔
ظفر نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر انجم کو سمجھانا شروع کیا کہ اصل خرابی انجم کے انداز فکر میں تھی جو اپنی ساس کو بوجھ سمجھتی تھی۔ کسی بزرگ کی خدمت کرنا تو عظیم نعمت ہوتا ہے۔ اسی طرح اس نے واضح کیا کہ وہ انجم کی خواہشات پر پیسہ لٹاتا رہتا تو اس کی والدہ کی مالی مدد نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس نے انجم کو یہ بھی سمجھایا کہ اس کے بھائیوں کے غلط رویے کی اصل وجہ مادی انداز فکر ہے جس میں چیزوں کو انسانوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
انجم نے اس عرصے میں اپنے بھائیوں کا جو رویہ دیکھا تھا اس آئینے میں اسے اپنا، اپنے بھائیوں اور اپنے شوہر کا فرق واضح طور پر نظر آگیا تھا۔ اسے معلوم ہوگیا تھا کہ اگر وہ اسی راستے پر چلی تو اس کی اولاد اس کے ساتھ وہی کرے گی جو اس کے بھائیوں نے اس کی ماں کے ساتھ کیا تھا۔ اور اگر وہ اپنے شوہر کی راہ پر چلی تو اس کی اولاد اس کے شوہر جیسی ہوگی۔ انجم نے فیصلہ کرلیا۔ اسے اپنی اولاد کو اپنے شوہر جیسا بنانا ہے۔
اس نے اپنی ساس اور اپنے شوہر سے سابقہ رویے کی معافی مانگی۔ اپنے گھر کو ایک پرسکون جنت بنا دیا۔ اللہ نے کچھ ہی عرصے میں اس کی گود بھر دی۔ اب انجم اپنی ساس کی طرح ایک اور اعلیٰ انسان کی پرورش کر رہی ہے جو آگے چل کر معاشرے میں نجانے کتنی خیر اور برکت پھیلائے گا۔