یہ تو کیڑے ہیں ۔ ابویحییٰ
یہ کئی برس پرانا واقعہ ہے۔ میں اپنے بھائی کے دوست سے ملنے گیا جن کا ہمارے خاندان سے بہت گہرا تعلق تھا۔ یہ ایک سادہ مزاج، دیندار اور کاروباری شخصیت تھے۔ اتفاق سے اس وقت کراچی کے سابقہ میئر عبدالستار افغانی مرحوم ان سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ ہمارے دوست مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بڑے جوش و جذبے سے میرا تعارف افغانی صاحب سے کرانے لگے۔ اس تعارف کا ایک جملہ مجھے نہیں بھولتا جو اس طرح تھا۔ ’’یہ تو کیڑے ہیں۔‘‘
یہ بظاہر ایک بڑے آدمی کے سامنے میری بے عزتی تھی، مگر درحقیقت یہ میری تعریف تھی۔ ہمارے دوست دراصل میرے علمی ذوق کو بیان کرنا چاہ رہے تھے۔ اس کے لیے جو تعبیر انھوں نے اختیار کی وہ کتابی کیڑے کی تھی اور شدت جذبات میں اس تعبیر سے کتابی کا لفظ رہ گیا۔ یوں جملہ یہ ادا ہوا کہ یہ تو کیڑے ہیں۔ چنانچہ ان کی اس بات کا میں نے کوئی برا نہیں مانا اور افغانی صاحب بھی بغیر کسی وضاحت کے سمجھ گئے کہ وہ کہنا کیا چاہ رہے تھے۔
اس کا سبب یہ تھا کہ ان صاحب سے ہم واقف تھے۔ جن لوگوں سے ہم واقف ہوتے ہیں، ہم کبھی ان کے سرسری الفاظ، ظاہری رویے، کسی خاص واقعے سے ان کا تاثر نہیں لیتے ہیں۔ بلکہ ان کی مجموعی شخصیت اور مثبت خصوصیات کی بنیاد پر ان کی باتوں اور کاموں کا مقصد متعین کرتے ہیں۔ یہی مثبت کردار کی خوبی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس منفی کردار کا حامل شخص ایک شکاری کی طرح ان لوگوں کی تاک میں بھی لگا رہتا ہے جن کا اس سے برسہا برس کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ ہر سیدھی بات میں بھی منفی پہلو تلاش کرلیتا ہے۔ جہاں دو آراء قائم کی جاسکتی ہیں وہاں ہمیشہ منفی چیز دیکھتا ہے۔ اور بالفرض کوئی ’’یہ تو کیڑے ہیں‘‘ جیسی بات سامنے آجائے تو وہ پوری قوت سے سامنے والے پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ تعلق خاطر کی ہر جہت کو کونے میں رکھ کر اپنا بدلہ چکاتا ہے اور یوں انسانی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت اجتماعی تعلقات کی بقا کا راز لوگوں سے حسن ظن رکھنا اور مثبت بنیادوں پر معاملات کو دیکھنا ہے۔ ورنہ دنیا کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہ سکتا۔