وہ کہتے ہیں خدا نہیں ہے ۔ کنول رخ
آج کی ماڈرن دنیا میں لاادریت (Agnosticism) اور الحاد (Atheism) کے تصورات نے خدائے واحد کے وجود کا یا تو سرے سے ہی انکار کر دیا ہے یا اس کے ہونے پر ایک سوالیہ نشان چسپاں کر دیا ہے۔ مگر کیا خدا کی ہستی اور اس کا وجود صرف علمی دلائل سے ماننے کی چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہستی کا اقرار ہماری فطرت کے اندر سے ابھرتا ہے۔ اس کے آثار کائنات کی ہر شے میں ملتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں خدا نہیں ہے۔ میں نے خدا کے آثار کو تتلی کے پروں سے لے کر سمندر کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں میں دیکھا۔ میں نے انھیں ہواؤں اور بادلوں میں دیکھا۔ میں نے انھیں غموں کی تاریکیوں سے لے کر خوشیوں کی رعنائیوں میں دیکھا۔ اس کی رحمت میرے ساتھ تب بھی تھی۔ جب میرے ساتھ دنیا کا کوئی رشتہ نہ کھڑا تھا۔ وہاں دلاسہ دینے کو نہ ماں تھی، نہ باپ، نہ کوئی بہن بھائی اور نہ ہی شوہر۔ مگر اس کی رحمت مجھے اپنی آغوش میں لے لینے کے لیے موجود تھی۔ میرے ایک بار لبیک کہنے پر اس نے میری ساری غفلتوں کو معاف کر کے مجھ پر نعمتوں اور رحمتوں کی ایسی بارش کی کہ اب اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
وہ کہتے ہیں خدا نہیں ہے۔ ہم نے اسے آنکھ سے نہیں دیکھا۔ وہ ہے یا نہیں اس کا تعین ہم کیسے کرسکتے ہیں۔ اور خدا کہتا ہے کہ کوئی آنکھ اسے نہیں پاسکتی اور وہ پا لیتا ہے سب آنکھوں کو،(الانعام آیت 103)۔ وہ کہتے ہیں دنیا خود بخود رواں دواں ہے اور اسے چلانے والا کوئی نہیں۔ اور وہ کہتا ہے کہ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انھیں جدا جدا کر دیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ (الانبیاء آیت 30)۔ وہ اپنے جسموں کے اعضاء کو ٹھیک ٹھیک کام کرتا پاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا کوئی بنانے والا نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ خدا ہی اس سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے)۔ اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے، (الرعد:13 8)۔
خدا کے تصور کو اگر خارج کر دیا جائے تو انسانی زندگی کی ہر دوسری اخلاقی بنیاد بھی اپنی جگہ کھو دے گی۔ خدا کے بعد بدی اور نیکی کا تصور بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جزا اور سزا کا قانون ختم ہوجاتا ہے کیونکہ خدا کے انکار سے آخرت کا انکار ہوجاتا ہے جو کہ روز جزا و سزا ہے۔ پھر نہ عملِ صالح کی طرف لے جانے والی کوئی تحریک باقی رہتی ہے اور نہ عملِ بد سے رکنے کی کوئی ترغیب باقی رہتی ہے۔ ایسے میں کچھ نہیں جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں فرق کیا جاسکے۔ خدائے واحد پر ایمان انسان کو زندگی کے ایسے دریچوں سے واقف کراتا ہے کہ جن کے کھلنے سے انسان کو نہ صرف اپنی ذات کی معرفت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ خدا کا قرب حاصل کر کے اسرار کائنات بھی پالیتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ انسان اپنے نفس کی نفی کر کے خدا کی ہستی کو پالیتا ہے۔ اسی کو اقبال نے’خودی‘ کا نام دیا ہے۔
خدا مادی دنیا میں تو نہیں دیکھا جاسکتا لیکن اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھو گے تو ظاہر کی آنکھ بھی اسے دیکھ لے گی۔ وہ رنگوں میں بھی نظر آئے گا اور بے رنگی میں بھی۔ وہ راحت میں بھی نظر آئے گا اور رنج میں بھی۔ وہ تب تب نظر آئے گا، جب کوئی بھی نہ ہوگا۔ اسے یہیں دیکھ لو تو بہتر ہے، ورنہ طوعاً و کرہاً اس کو دیکھنا ہی ہوگا، مگر اس دن پچھتاووں کے سوا کچھ نہ ہوگا۔