ووٹ کس کو نہ دیں ۔ ابویحییٰ
مجھ سے آج کل اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس کو ووٹ ڈالا جائے۔ میں اس حوالے سے صرف دو باتیں عرض کروں گا۔ پہلی یہ کہ ووٹ دیتے وقت آئیڈیل امیدوار کا تصور ذہن سے نکال دیں۔ سوائے انبیا علیہم السلام کے کوئی آئیڈیل نہیں ہوسکتا نہ ان کے سوا کسی کی حکومت آئیڈیل تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ خلافت راشدہ جیسے دور میں بھی حضرت عثمان اور حضرت علی کو غیر آئیڈیل قرار دے کر شہید کر دیا گیا۔ باقی رہے حضرات ابوبکر و عمر تو یہ دونوں صرف اس لیے غیر متنازع رہے کہ پہلے انصار اور پھر سیدنا علی نے مثبت ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی مخالفت کے بجائے موافقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ورنہ جو بغاوت بعد میں ہوئی وہ پہلے ہوجاتی۔ خلافت راشدہ کسی آئیڈیل حکومت کا نہیں، اس آئیڈیل سماج کا نام تھا جو صحبت مصطفوی نے تخلیق کیا تھا۔
اس لیے جب کوئی پارٹی یا امیدوار آئیڈیل حکومت کی باتیں کرتا ہوا آئے تو اسے فوراً رد کر دیں۔ ہر امیدوار سے کہیں کہ ہر مسئلے کے حل کی امید نہ دلاؤ، جو تم یقینی طور پر کرسکتے ہو صرف وہ بتاؤ۔ جو مکمل تبدیلی کی بات کرے اسے رد کر دیں۔ کیونکہ ایسا شخص آپ کو بے وقوف بنانے آیا ہے۔
دوسری اور آخری بات یہ ہے کہ جو امیدوار اور پارٹی ایک دفعہ آپ کو مایوس کرچکی ہو، دوبارہ اس کو ووٹ نہ دیں۔ چاہے وہ مستقبل کے لیے کتنے ہی اچھے وعدے کیوں نہ کرے۔ یاد رکھیے آپ کا اصل ہتھیار سیاستدانوں کو رد کرنا ہے۔ آپ نے بری کارکردگی کے باوجود بھی سیاستدانوں کو ووٹ دیا تو اگلی دفعہ زیادہ بری کارکردگی کے لیے تیار رہیں۔ سیاستدان اس محبوب کی طرح ہوتا ہے جسے جتنی زیادہ محبت ملے وہ اتنا ہی آپ کو خوار کرے گا۔
اس لیے سیاسی قائدین سے عشق نہ کریں۔ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کریں۔ اس سے ہارنے والی جماعت کو نصیحت ملے گی اور جیتنے والی جماعت میں آپ کا خوف بیٹھ جائے گا۔ یہی چیز سیاستدانوں کو راہ راست پر رکھنے میں مدد دیتی ہے۔