اسوہ ابراہیمی ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا: ’’اسلم‘‘ یعنی خود کو میرے حکم کے تابع کر دو۔ انہوں نے فوراً عرض کیا کہ میں نے اپنے آپ کو عالم کے پروردگار کے حوالے کر دیا، (البقرہ 131:2)۔ یہ اسوہ ابراہیمی ہی اسلام کی اصل تعریف ہے۔ یعنی اپنی مرضی، جذبات اور خواہشات کو اللہ کے حکم کے سامنے مٹا کر اس کی بات مان لینا۔
قرآن مجید میں یہ آیت یہود و نصاریٰ کے پس منظر میں آئی ہے۔ ان میں سے ہر کوئی آپ کا نام لیوا اور دین حق کا علمبردار بنا ہوا تھا۔ مگر درحقیقت خدا اور پیغمبروں کے نام پر کھڑے یہ لوگ اپنی خواہشات اور جذبات کے پیروکار تھے۔ ایسے میں ان لوگوں کو حضرت ابراہیم کی سیرت کے ذریعے سے یہ سبق دیا گیا کہ بندگی کا راستہ یہ نہیں ہوتا کہ اپنی خواہش کا دین اختیار کر لیا جائے۔ بلکہ اصل راستہ یہ ہے کہ اپنی مرضی، جذبات، خواہشات اور ذوق و نظریات کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دیا جائے۔ اپنے ظاہر و باطن کو اللہ کے حوالے کر دیا جائے۔
پیغمبروں کی امتوں پر جب ایک طویل وقت گزر جاتا ہے تو دین کی اصل دعوت پر لوگوں کے جذبات، خواہشات اور تعصبات غالب آجاتے ہیں۔ ان کے زیر اثر طرح طرح کی گمراہیاں جنم لیتی ہیں۔ مگر لوگ ان گمراہیوں کو مذہبی تقدس کا روپ دے دیتے ہیں۔ جیسے نصاریٰ نے رہبانیت کی بدعت کو دینی عمل بنا دیا تھا۔ جبکہ یہود نے اپنی قوم پرستی کو دینی روپ دے دیا تھا۔
ایسے میں جب مجددین اور مصلحین اٹھتے ہیں تو ان کے مقابلے میں گمراہ لوگ پورے اعتماد سے کھڑے ہوکر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہی سچائی پر ہیں۔ ایسے میں لوگوں کو اسوہ ابراہیمی یاد دلانا چاہیے۔ یعنی اسلام یہ ہے کہ انسان کا قول و فعل اللہ کی مرضی کے عین مطابق ہو اور اللہ کی کتاب اس کی تصدیق کر رہی ہو۔ اور ایسا نہیں تو یاد رکھو کہ تم ایک سرکش گروہ کے سوا کچھ نہیں۔ تمھارا کوئی اعتماد، کوئی یقین تمھیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا۔