الٹا چاند ۔ ابویحییٰ
یہ ایک تجربہ ہے جو قمری مہینے کے بیشتر ایام میں کیا جاسکتا ہے لیکن مہینے کی سات اور اکیس تاریخ اس تجربے کے لیے بہترین ہیں۔ ان دو تاریخوں میں چاند بالکل آدھا نظر آرہا ہوتا ہے۔ سات تاریخ کو آپ آسمان پر نظر ڈالیں اور چاند کو غور سے دیکھیں۔ چاند انگریزی زبان کے حرف D کی مانند نظر آئے گا۔ یعنی اس آدھے چاند کاروشن حصہ دائیں طرف ہوگا۔ یہی تجربہ قمری مہینے کی اکیس تاریخ کو دہرائیں تو اب آپ کو چاند انگریزی حروف تہجی کے C کی مانند نظر آئے گا۔ یعنی اس کا روشن حصہ بائیں آچکا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہینے کے نئے چاند یا ہلال کے ساتھ جب چاند کا دائرہ بڑھنے لگتا ہے تو اردو کے حرف د سے اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ پھر بتدریج روشن چاند کا دائرہ داہنی سمت سے بھرتا ہے اور سات تاریخ کو انگریزی کے حرف D کی طرح نصف روشن ہوجاتا ہے۔ چودھویں کو چاند مکمل دائرے کی شکل میں بھر جاتا ہے اور اس کے بعد داہنی سمت ہی سے چاند کا روشن حصہ کم ہونے لگتا ہے۔ اکیس تاریخ کو یہ حرف C کی طرح آدھا رہ جاتا ہے۔ مگر سات تاریخ کے چاند کے برعکس اس آدھے چاند کا پیٹ دائیں کے بجائے بائیں طرف ہوتا ہے۔ اور پھر اسی سمت میں یہ کم ہوتا ہوا غائب ہوجاتا ہے۔
اگر آپ زمین کے نصف جنوبی کرے (Southern Hemisfhere) کے کسی ملک جیسے آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ میں موجود ہیں تو یہ تحریر پڑھتے ہوئے آپ میرے مشاہدے کو بالکل غلط قرار دیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ مجھے جھوٹی معلومات فراہم کرنے والا ایک دھوکے باز شخص سمجھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ میرے بیان کردہ طریقے کے مطابق چاند کو ساتویں اور اکیسویں شب کو دیکھیں گے تو چاند بالکل برعکس جگہ پر ہوگا۔ یعنی ساتویں کو وہ C اور اکیسویں کو D کی مانند ہوگا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ بھی ٹھیک ہیں اور میں بھی غلط نہیں۔ میرے جیسے وہ تمام لوگ جو زمین کے شمالی نصف کرے (Northern Hemisphere) پربستے ہیں، وہ چاند کو ایسا ہی دیکھتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ چاند زمین کے مرکز یا خط استوا کے گرد گردش کرتا ہے۔ خط استوا (equator) کے شمال میں واقع لوگوں کو وہ اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے جیسا کہ وہ خط استوا کے جنوب میں واقع لوگوں کو نظر آتا ہے۔ یوں دونوں خطوں کے لوگ ایک ہی حقیقت کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔
انسانی زندگی میں جو اختلافات پیش آتے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جہاں فرق صحیح اور غلط اور حق و باطل کا ہوتا ہے۔ تاہم اکثر اوقات دونوں فریق اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوتے ہیں۔ لیکن وہ معاملے کو اپنے اپنے زاویے اور اپنے اپنے مقام سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض اوقات ایک ہی حقیقت بالکل مختلف بلکہ متضاد نظر آتی ہے۔ یوں اختلاف رائے بلکہ بارہا فساد ، لڑائی جھگڑے اور تعلقات کی خرابی کی نوبت آجاتی ہے۔
اس اختلاف کی ایک مثال مسلمان فقہا کے مابین ہونے والا اختلاف رائے ہے۔ یہی معاملہ ساس بہو کے جھگڑے کا ہے۔ اس میں بھی دونوں فریق اکثر اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوکر معاملات کو دیکھتے ہیں اور نتیجے کے طور پر اختلاف ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے اختلافات کو رفع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دوسرے شخص کا زاویہ نظر سمجھا جائے۔ اگر معاملہ حق و باطل کے بجائے زاویہ نظر کا ہے تو یہ مان لیا جائے کہ اس معاملے میں ایک سے زیادہ رائے قائم کرنا ممکن ہے۔ اگر معاملہ ساس بہو کی طرح عملی نوعیت کا ہے تو پھر زاویہ نظر کے اختلاف کو حل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فریق دوسرے کی رعایت کرے۔ اس سے درگزر کرے۔ یہ نہ ہوسکے تو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ایسے مسائل حل کیے جاتے ہیں جس میں ہرفریق کچھ نہ کچھ پیچھے ہٹتا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا راستہ اختلاف کو فساد میں بدل دیتا ہے۔