ٹکڑے اور شاہی ٹکڑے ۔ ابویحییٰ
اردو زبان میں کسی کے ٹکڑوں پر پلنے کا محاورہ کسی اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ پرانے زمانے میں کھاتے پیتے لوگوں کے دسترخوان پر بچ جانے والے روٹی کے ٹکڑے فقرا و مساکین کو دے دیے جاتے تھے یا پھر جانوروں کو ڈال دیے جاتے تھے۔ چنانچہ اس کا اسلوب عام طور پر تحقیر کا اسلوب سمجھا جاتا ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی کسی کو ٹکڑے نہیں ڈال سکتا۔ اس لیے درحقیقت ہر شخص یہاں خدا کے بخشے ہوئے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ وہ نہ دے تو کسی کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک نوالہ اور پینے کے لیے پانی کا ایک گھونٹ بھی میسر نہیں ہوسکتا۔ کوئی کسی کو اگر کچھ دیتا ہے تو وہ خدا کے دیے ہوئے میں سے دیتا ہے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ اس انفاق کو لوگوں کی طرف سے قبول کرتا ہے۔ ورنہ درحقیقت یہاں ہر شخص خدا کی بھیک اور اس کے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔
زبان کے اس اسلوب سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ٹکڑوں پر نہیں پالا بلکہ نعمتوں کے لحاظ سے انھیں شاہی ٹکڑوں پر پالا ہے۔ اس دنیا میں ان گنت اقسام کے جانوروں کی خوراک کے لیے صرف بے مزہ گھاس ہے اور انسان کے لیے کھٹا، میٹھا، ترش، تلخ کے علاو ہ نمکین اور مصالحہ دارذائقہ پیدا کیا گیا ہے جس کے بغیر زندگی پھیکی ہوجاتی ہے۔ دال، سبزی، گوشت اور دیگر اقسام کی خوراک کا وہ تنوع انسانوں کے لیے بنایا گیا ہے جو ہر روز نت نئے ذائقوں سے ان کے دسترخوان کو سجاتا ہے۔
اب یہ انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نعمتوں کے اس دسترخوان پر سجے ذائقے کے ان ”شاہی ٹکروں“ پر اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ کیونکہ جو لوگ رب کے احسانوں کو غیب میں رہ کر پہچان لیتے ہیں، وہی ہیں جوعنقریب فردوس بریں میں شاہی مہمان بنائے جائیں گے۔