تزکیہٴ نفس قرآن کی روشنی میں ۔ پروفیسر عقیل
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔(الذاریات ۵٦:۵١)۔ اس بندگی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ خدا ہی کی بات مانی جائے۔ اسی کے احکامات پر اپنے ظاہر و باطن کو جھکا دیا جائے اور طاغوت کی بات ماننے سے گریز کیا جائے(النحل ۳٦:١٦)۔ اسی بندگی اور تسلیم و رضا کو جانچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زندگی و موت کا نظام پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے(الملک ۲:٦۷)۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں خیر و شر کا شعور رکھ دیا اور ساتھ ہی وحی کے ذریعے صراط مستقیم کا تعین کردیا تاکہ لوگ خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گذار کر جنت کی ابدی نعمتوں سے مستفید ہوں۔ اس اہتمام کے باوجود انسان اکثر گناہوں کی غلاظت میں ملوث ہوجاتا ہے۔ گناہوں کی آلودگی کے ساتھ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ یہ گناہوں کی صفائی کا عمل دنیا کی زندگی سے شروع ہوتا اور اللہ کی رحمت سے آخرت میں منتہائے کمال تک پہنچ جاتا ہے۔
اپنی ذات کو گناہوں سے پاک کرنے کو اصطلاح میں تزکیہ نفس کہا جاتا ہے۔ تزکیہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا مطلب گناہوں کو دور کرنا اور ان کی صفائی کرنا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صفائی کے بعد نیکیوں اور اچھے اعمال کی بنیاد رکھنا اور انہیں نشونما دینا ہے۔ نفس سے مراد انسانی ذات یا شخصیت ہے۔ چنانچہ تزکیہ نفس کا مفہوم یہ ہوا کہ انسانی شخصیت میں سے برائیوں کو ختم کرنا اور اچھائیوں کو پروان چڑھانا۔
تزکیہ نفس دیکھنے میں تو ایک سادہ عمل ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن یہی دین کا مقصود ہے اور اسی عمل میں کامیابی کا نتیجہ جنت کی ابدی نعمتوں کی شکل میں نکلے گا۔ جبکہ اس میں ناکامی کا انجام جہنم کے گڑھے ہیں۔ تزکیہ نفس کی اسی اہمیت کی بنا پر قرآن نے اسے براہ راست موضوع بنایا ہے۔
جنت میں داخلے کی شرط تزکیہ ہے۔
جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ انسان نے خود کو ہر طرح کے گناہوں اور لغزشوں سے پاک کرنے کی کوشش کی ہو۔ یعنی جنت کی شہریت کے لیے تزکیہ کا حصول لازمی ہے۔ قرآن میں بیان ہوتا ہے:
’’(اور) سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کے لیے جزا ہے جس نے اپنا تزکیہ(خود کو گناہوں سے پاک) کیا۔‘‘ (طٰہٰ ۷٦:۲۰)
ایک اور جگہ بیان ہوتا ہے:
’’یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔ اور وہ نامراد ہوگا جس نے اسے آلود ہ کیا۔‘‘(الشمس ۹١:۹تا١۰)
یہی مضمون ایک اور آیت میں بیان ہوا ہے:
’’فلاح پاگیا جس نے تزکیہ کیا (پاکیزگی اختیار کی)۔‘‘ (الاعلیٰ ١۴:۸۷)
تزکیہ میں ناکامی کا انجام جہنم ہے
آخرت میں ایک انسان اگر گناہوں کے ساتھ خدا کے حضور پیش ہو لیکن اس کی نیکیاں برائیوں سے سبقت لے جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان گناہوں کو دور کر کے اسے پاک کر دیتے اور جنت میں داخلے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے ظاہری و باطنی وجود کو گناہوں سے آلودہ رکھا اور اسی حالت میں آخرت میں اللہ کے حضور پہنچ گئے ان کی آلودگی کو پاک کرنے سے اللہ نے صاف انکار کیا ہے۔ اس سے علم ہوتا ہے کہ تزکیہ کی ابتدا انسان کا اپنا عمل ہے۔
درج ذیل آیت میں عمل کی نجاست میں لتھڑے ہوئے اور دنیا کے عوض آخرت کو داؤ پر لگانے والے انسانوں کو اللہ نے پاک کرنے سے انکار کردیا:
’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ بلکہ ان کے لیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔‘‘(آل عمران ۷۷:۳)
’’جو لوگ ان باتوں کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کی ہیں اور اس کام کے عوض تھوڑا سا دنیوی فائدہ اٹھا لیتے ہیں یہ لوگ دراصل اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے کلام کرے گا اور نہ (گناہوں سے) پاک کرے گا۔ اور انہیں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔‘‘ (البقرہ ١۷۴:۲﴾
ذیل میں ہٹ دھرم اور جانتے بوجھتے انکار کرنے والے اور عقیدے کی نجاست رکھنے والوں کا تزکیہ کرنے سے اللہ نے منع فرمادیا:
’’جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صَرف کر رہے ہیں اور ابھی وہ خرچ کرتے رہیں گے۔ مگر آخرِ کار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے، تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے، یہی لوگ اصلی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔‘‘ (الانفال ۳۷:۸﴾
تزکیہ کرنا پیغمبروں کا اصل مقصد ہے
اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی گندگی کو دور کرنے کے لیے کئی اہتمام کئے ہیں۔ ایک تو نفس لوامہ یا ضمیر انسان کے اندر رکھ دیا جو ہر گناہ کرنے پر اسے کچوکے لگاتا اور احساس دلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ نے پیغمبروں کا سلسلہ شروع کیا تا کہ لوگوں کو گناہوں سے پاک کر سکیں۔ جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:
’’(اے موسی) تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے، اور اس سے کہہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ اپنا تزکیہ کرے۔‘‘ (النازعات ۷۹:١۷ تا ١۸)
حضرت ابراہیم کی نبی کریم کی بعثت کی دعا
حضرت ابراہیم نے جب اللہ سے آخری نبی کی بعثت کی درخواست کی تو پیغمبر کی آمد کا ایک اہم مقصد یہی تزکیہ بیان کیا۔
’’اے ہمارے پروردگار! ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہی میں سے ہو، وہ ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنا دے۔ بلاشبہ تو غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘(البقرہ ١۲۹:۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے فرائض
چنانچہ اللہ نے جب آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تو ان کا بھی بنیادی مقصد لوگوں کو گناہوں سے دور کرنا ہی بیان کیا۔
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان کو پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘(آل عمران١٦۴:۳)
اس آیت پر اگر غور کیا جائے تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبر کے تین فرائض بیان ہوئے ہیں۔ پہلا کام اللہ کی آیات پڑھنا، دوسرا کام تزکیہ کرنا اور تیسرا کام کتاب و حکمت کی تعلیم دینا۔ لیکن اگر ذرا غور سے جائزہ لیا جائے تو اصل کام تزکیہ یعنی پاک کرنا ہی ہے۔ اسی کے لئے اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور اسی تزکیہ کے لئے شریعت اور اس کے فلسفے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ تزکیہ کا کام شروع ہوجاتا ہے تو لوگوں کو صراط مستقیم مل جاتی اور وہ راہ راست پر آکر گمراہی سے نکل جاتے ہیں۔
یہی مضمون ایک اور آیت میں بھی بیان ہوا ہے:
’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کے (نفس کو) پاک کرتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ (الجمعہ۲:٦۲)
اسی تزکیہ کا براہ راست حکم ایک اور آیت میں اس طرح دیا گیا ہے:
’’اے نبی! آپ ان کے اموال سے صدقہ وصول کیجیے اور اس صدقہ کے ذریعہ ان (کے اموال) کو پاک کیجیے اور ان (کے نفوس) کا تزکیہ کیجیے، پھر ان کے لئے دعا بھی کیجیے۔ بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین کا باعث ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ (التوبہ ١۰۳:۹)
گناہوں سے پاک لوگ ہی اللہ کو پسند ہیں
اللہ کو پاک لوگ ہی پسند ہیں اور یہ پاکی ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی۔ یہ پاکی ایمان کی بھی ہے اور عمل کی بھی۔ چنانچہ وہ لوگ جو عقیدے کی نجاست اور نفاق کی گندگی کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ان کی بنائی ہوئی مسجد تک کو ڈھانے کا حکم دے کر اپنا فیصلہ ہر لحاظ سے پاک رہنے والے مومنوں کے حق میں سنادیا:
’’(اے نبی)! آپ اس (مسجد ضرار) میں کبھی بھی (نماز کے لئے) کھڑے نہ ہونا۔ وہ مسجد جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد رکھی گئی تھی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(التوبہ ١۰۸:۹)
پیغمبر کی بعثت اور تزکیہ اللہ کا انعام ہے
پیغمبر کی بعثت اور تزکیہ نفس کو اللہ نے اپنے انعام اور احسان کے طور پر پیش کیا ہے۔
’’جیسا کہ ہم نے (تم پر یہ انعام کیا کہ) تم ہی میں سے تم میں ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیات تلاوت کرتا ہے اور تمہارا تزکیہ نفس کرتا (یعنی تمہیں پاکیزہ بناتا) ہے اور کتاب و حکمت سکھلاتا ہے اور وہ کچھ بھی سکھلاتا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے۔‘‘(البقرہ ١۵١:۲)
تزکیہ کا کمال اللہ کی عنایت ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پاکی حاصل کرنے کی کوشش تو کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ آلائشیں اس کے دامن میں رہ جاتی ہیں۔ کامل تزکیہ عطا کرنا اللہ کی عنایت ہے نیز تزکیہ کرنے والوں کو اس تکبر میں مبتلا نہ ہوجانا چاہیئے کہ اب وہ کوئی بہت بڑے بزرگ بن بیٹھے ہیں۔ یہ رویہ خود تزکیہ کے خلاف ہے کیونکہ یہ تکبر کو جنم دیتا ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہو سکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘(النور ۲١:۲۴﴾
ایک اور مقام پر ان نام نہاد تزکیہ کرنے والوں کی مذمت کی:
’’کیا آپ نے ان لوگوں کی حالت پر بھی غور کیا جو اپنی پاکیزگی نفس کی شیخی بگھارتے ہیں۔ حالانکہ پاک تو اللہ ہی کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (النساء ۴۹:۴)
آئیے اللہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ذریعے تزکیہ نفس کی دعا کریں۔
اے اللہ میں تجھ سے عاجز ہونے اور سستی اور بزدلی اور بخل اور بڑھاپے اور عذاب قبر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا کر اور اس کا تزکیہ نصیب فرما کہ تو ہی تزکیہ کرنے والوں میں سے بہتر ہے۔ اور تو ہی کار ساز اور مولیٰ ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع دینے والا نہ ہو اور ایسے دل سے جو ڈرنے والا نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر ہونے والا نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول ہونے والی نہ ہو۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2405)۔