تضاد ۔ محمد ثوبان
کل میں بازار سے گزر رہا تھا۔ ایک شخص جو وضع قطع سے اچھے خاصے مذہبی لگ رہے تھے، میرے قریب سے گزرے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی موٹر سائیکل ایک دوسرے شخص کی موٹر بائیک سے ٹکرا گئی۔ پھر وہی لفظوں کی روایتی جنگ شروع ہوئی جس میں ایک شخص دوسرے کو قصوروار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو جاتی ہے۔ مذہبی وضع قطع والے شخص کے آخری جملے نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کر دیا۔ مذہبی شخص کا آخری جملہ یہ تھا ”کلین شیو والے ہوتے ہی اس طرح کے ہیں“۔ آسان لفظوں میں اُنہوں نے انسان کے ظاہری حلیے کو اچھائی اور برائی کا معیار ثابت کیا۔
معزز قارئین! یہ نفسیات ہمارے معاشرے میں کثرت سے پائی جاتی ہے ہم ایک خاص طرح کی وضع قطع کو مذہب کی نشانی سمجھتے ہیں۔ جس شخص نے وہ خاص وضع قطع اختیار نہ کی ہو، اُس کا ایمان ہماری نظروں میں مردود ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری مذہبی جماعتیں جو دین کے نام پر بنی ہیں وہ بھی شخصی تربیت کے بجائے ایک خاص طرح کا حلیہ بنانے کو دینداری سمجھتی ہیں۔ لیکن اسلام دینِ فطرت ہے۔ اِس میں ہر ظاہری حکم کا ایک باطنی پہلو بھی ہے جو دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ اگر ہم ظاہری طور پر کچھ نیکیاں کرتے ہیں تو وہ تب ہی بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوں گی جب اُن کی اصل اسپرٹ ہمارے اندر موجود ہوگی۔ چند سجدے کر لینے کا نام اسلام نہیں بلکہ اپنے جسم کا ذرہ ذرہ فرمانِ الٰہی کے تابع کر دینا اسلام ہے۔
دین کا مقصد تزکیہ نفس ہے، انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے اپنے مقصد کے طور پر ہمیشہ سامنے رکھنا ضروری ہے۔