تصویر کا چھوٹا سا ٹکڑا ۔ محمد عامر خاکوانی
کئی سال پہلے ایک چینی کہانی پڑھی تھی، آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل سکا، اس نے سوچنے اور چیزوں کو دیکھنے کا انداز ہی بدل دیا۔ ایک بار پہلے بھی اس کا ذکر کیا تھا، ممکن ہے آپ میں سے بعض نے یہ کہانی سنی ہو، اشفاق صاحب نے بھی ایک بار یہ سنائی تھی۔ دوبارہ سن لیں، کہتے ہیں کہ کہانیوں کا سحر وقت گزرنے کے ساتھ گہرا ہوجاتا ہے۔ قدیم چینی دور کی کہانی ہے۔ کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ پرانا سا ایک مکان تھا، ایک کمرے میں باپ بیٹا رہتے ، دوسرے کمرے کو اصطبل بنایا ہوا تھا، وہاں ان کا گھوڑا رہتا ہے۔ یہ گھوڑا بڑا شاندار اور نہایت اعلیٰ نسل کا تھا۔ بہت پہلے بوڑھے کسان کے ہاتھ ایک گھوڑے کا بچہ لگا، اس نے باپ کی طرح اسے پالا۔ بڑا ہو کر اس گھوڑے کی خوبصورتی کی دھوم مچ گئی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے۔ گاؤں کے رئیس نے اسے دیکھا تو پہلی نظر میں فریفتہ ہو گیا، اس نے بوڑھے کو بلا کر منہ مانگی قیمت کی پیش کش کی۔ کسان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھوڑا نہیں، میرا بیٹا ہے، اپنی اولاد کو کوئی فروخت نہیں کرتا۔ اور بھی لوگوں نے خریدنے کی کوشش کی، سب ناکام رہے۔ گاؤں کے کچھ سمجھدار لوگوں نے بوڑھے کو سمجھایا کہ تم غریب آدمی ہو، ایسے اعلیٰ گھوڑے کو کتنی دیر تک سنبھال کر رکھ لو گے، اچھی قیمت مل رہی ہے، بیچ ڈالو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی یہ گھوڑا چرا کر لے جائے۔ ایسے ہر مشورے کے جواب میں وہ بابا جی مسکرا دیتے اور بس، بات ختم ہوجاتی۔
ایک دن بوڑھا کسان اور اس کا بیٹا حسب معمول صبح اٹھے تو دیکھا کہ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا اور گھوڑا غائب ہے۔ پریشان ہو کر آس پاس دیکھا، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ بستی والوں کو پتہ چلا تو وہ افسوس کرنے آئے۔ جن لوگوں نے گھوڑا بیچنے کا مشورہ دیا تھا، انہوں نے فٹ سے طعنہ دیا کہ تمہیں سمجھایا تو تھا کہ گھوڑا بیچ دو، اس وقت نہیں مانے۔ اب تمہاری بدقسمتی کہ بغیر کچھ لئے گھوڑا گنوا بیٹھے۔ کسان یہ سب باتیں سنتا رہا، پھر بڑے اطمینان سے بولا، بھائیو، تمہاری بڑی مہربانی کہ میرے پاس آئے، اپنی ہمدردی کا اظہار کیا، مگر مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس میں بدقسمتی کہاں سے آگئی۔ یہ درست ہے کہ میرے پاس گھوڑا تھا، جو مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھا، آج صبح وہ گھوڑا اپنے کمرے سے غائب ہے۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر اس کے بارے میں ابھی سے یہ کیسے طے کر لیا گیا کہ یہ بدقسمتی ہے؟ گاؤں والے بڑے حیران ہوئے، آپس میں کہنے لگے کہ شائد صدمے کی وجہ سے بابے کا دماغ چل گیا ہے، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہزاروں کی مالیت کا گھوڑا چوری ہو گیا۔ بڑبڑاتے ہوئے سب لوگ واپس چلے گئے۔ دو تین دن بعد اچانک وہ گھوڑا واپس آگیا، اپنے ساتھ وہ جنگل سے صحت مند، اعلیٰ نسل کے اکیس نوجوان گھوڑے بھی لے آیا۔ گاؤں میں دھوم مچ گئی۔ لوگ آکر بوڑھے کو مبارکبادیں دینے لگے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے اس روز غلط بات کی تھی، گھوڑے کا چلا جانا بدقسمتی نہیں تھی، اصل میں توتمہاری خوش قسمتی تھی، آج پورے اکیس گھوڑے تمہارے گھر آ گئے۔ کسان نے حیرت سے یہ سب تبصرے سنے اور پھر کہا، بھائیوِ، مجھے ایک بار پھر تمہاری باتوں کی سمجھ نہیں آئی، میرا گھوڑا واپس آ گیا، یہ درست ہے کہ وہ اکیس گھوڑ ے لے آیا ہے، مگر اس میں خوش قسمتی کی کیا بات ہے؟
گاؤں والے یہ سن کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ چند دن گزرگئے، کسان کا بیٹا ان جنگلی گھوڑوں کو سدھانے کی کوششوں میں مصروف تھا، ایک دن ایک سرکش گھوڑے نے اسے ایسی پٹخنی دی کہ اس کی ٹانگ ہی ٹوٹ گئی، طبیب نے دیکھا بھالا اور تین مہینوں کے لئے بستر پر آرام کی ہدایت کی۔ ایک بار پھر گاؤں امنڈ آیا۔ ہر ایک نے بوڑھے کے ساتھ ہمدردی کی۔ چند ایک نے صاف گوئی کے ساتھ اعتراف کیا کہ بابا جی آپ ہی ٹھیک تھے، ان اکیس گھوڑوں کا آنا خوش قسمتی نہیں بلکہ درحقیقت بدقسمتی کا اشارہ تھا۔ آپ کا اکلوتا سہارا، نوجوان بیٹا زخمی ہو گیا، نجانے اس کی ٹانگ درست طور پر جڑتی بھی ہے یا نہیں، آپ بوڑھے بندے ہو، تمام کام کاج بیٹا کرتا تھا، اب مشکل ہوگی، آپ کی قسمت خراب ہے کہ ایسا ہو گیا۔ بوڑھے کسان نے یہ سن کر ٹھنڈی سانس بھری اور قدرے جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا، یارو ہر واقعے میں خوش قسمتی یا بدقسمتی نہ ڈھونڈ لیا کرو، جو بات جتنی ہے، اتنی ہی بیان کرو، اتنی قطعیت سے کوئی فیصلہ کن رائے نہ دیا کرو، میرا بیٹا گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا، اس حد تک تو تمہاری بات درست ہے، باقی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے، قدرت ہی اس کے بارے میں بہتر جانتی ہے۔
دو تین ہفتے گزرے، اچانک ہی جنگ چھڑ گئی، قریبی ملک کی فوج نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ نے جبری بھرتی کا حکم دیا۔ ریاستی اہلکار دوسرے دیہات کی طرح اس گاؤں میں بھی آئے اور بوڑھے کسان کے زخمی بیٹے کے سوا ہر نوجوان کو پکڑ کر لے گئے۔ گاؤں والے روتے پیٹتے بابے کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں بےوقوف سمجھتے تھے، تم تو ہم سب سے زیادہ سیانے نکلے۔ واقعی تمہارے بیٹے کا حادثہ بدقسمتی نہیں تھا۔ سچ پوچھو تو تمہاری انتہائی خوش قسمتی تھی، ہم سب کے بیٹے جنگ لڑنے چلے گئے، معلوم نہیں واپس لوٹتے بھی ہیں یا نہیں، تمہارا بیٹا تو چلو تین چار ماہ میں ٹھیک ہوجائے گا۔ بوڑھے کسان کے پاس سوائے سر پیٹنے کے کوئی چارہ نہیں تھا، بے چارگی سے اس نے کہا، بھائیو اگر تم لوگ اصل بات کو سمجھ لیتے تو کبھی اتنا پریشان نہیں ہوتے۔ ہم سب بہت جلدی کسی واقعے پر خوش قسمتی، بدقسمتی کا لیبل لگا دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب تصویر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں، ہم میں سے کسی کے پاس مکمل تصویر نہیں ، تصویر کا ایک ٹکڑا ہی ہوتا ہے۔ اسی ٹکڑے کو ہم مکمل تصویر سمجھ لیتے ہیں۔ ایک ٹکڑا کبھی تصویر کو درست طریقے سے بیان نہیں کر سکتا، اس کے رنگ تک نہیں بتا سکتا۔ ہمیں حتمی رائے دینے کے بجائے انتظار کرنا چاہیے، جو واقعہ ہوا ہے، اسے اتنا ہی سمجھنا اور ماننا چاہیے۔
کہانیاں اپنے اندر صدیوں کی دانش اور تجربات کا نچوڑ سموئے ہوتی ہیں، انہیں اس لئے سنایا جاتا ہے کہ کچھ سیکھا جائے۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ اپنے ملک کے حوالے سے کوئی حتمی رائے دینے سے پہلے اس کہانی کو ضرور ذہن میں دہرا لیا کریں۔ ملک کی سیاسی یا سماجی تاریخ ہو، کسی واقعے کو ایک واقعہ ہی سمجھنا چاہیے، اس کی بنیاد پر پوری قوم اور پورے ملک کے مستقبل کا فیصلہ سنا دینا دانشمندی نہیں۔ تصویر کے مختلف ٹکڑے باری باری سامنے آتے ہیں، مکمل تصویر دیکھے بغیر صرف اپنے حصے کے چھوٹے سے ٹکڑے کی بنا پر مایوسیاں اورغلط فہمیاں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ویسے جی مانے تو سیاسی واقعات کی تفہیم کرتے ہوئے، کوئی فیصلہ سنا دینے سے پہلے بھی یہی طریقہ آزما لیا کریں۔ کوئی چاہے تو حالیہ لانگ مارچ یا آزادی مارچ کے حوالے سے بھی یہی طریقہ آزما لے، انشاء اللہ ناکامی نہیں ہو گی۔