ترقی کا راستہ ۔ ابو یحییٰ
دو صدی پہلے تک دنیا میں بادشاہی نظام قائم تھا۔ مملکتیں بادشاہوں کی ہوتی تھیں۔ وہی اس کے مالک ہوا کرتے تھے اور ملک کے سارے وسائل ان کے قبضے میں ہوتے جنھیں وہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے تھے۔ وسائل میں سے کچھ حصہ امراء، نوابوں، جاگیرداروں میں تقسیم ہوجاتا۔ جبکہ بچے کچُے وسائل عوام کے حصے میں آتے جن سے وہ بمشکل زندہ رہ پاتے۔
پھر دنیا میں نیشن اسٹیٹ کا دور شروع ہوا۔ بادشاہتیں ختم ہوئیں یا صرف ایک آئینی عہدے کے طور پر باقی رہ گئیں۔ ریاست عوام کی ملکیت ہوگئی۔جمہوری طریقے پر وہ اپنے حکمران منتخب کرنے لگے۔ اس طریقے میں حکمران اچھے بھی آتے اور برے بھی۔ مگر دنیا بھر کے عوام حکمرانوں سے عشق نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی بری کارکردگی پر جلد یا بدیر ان کو فارغ کر دیتے۔ یوں رفتہ رفتہ رد کیے جانے کے خوف سے عوامی بہبود اور ملکی ترقی حکمرانوں کا مطمع نظر بنتی چلی گئی۔
سب سے پہلے مغرب نے ترقی اور عوام کی فلاح کے اعلیٰ معیارات قائم کیے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے دور میں ایک قوم کی ترقی نے دوسری قوم کے لیے بھی ایک جذبہ محرکہ کا کام کیا۔ چنانچہ مغرب کی دیکھا دیکھی مشرق میں بھی ترقی کی لہر آگئی۔ مشرق اور مشرق بعید کے ممالک نے ترقی کی راہیں طے کرنا شروع کیں۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور ہی نہیں بلکہ ویتنام اور تھائی لینڈ جیسے ممالک بھی ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔
ان کے اثر سے ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے مسلم ممالک نے اپنا سفر شروع کیا۔ اُدھر یورپ کے مرد بیمار ترکی نے بھی اسی راستے پر قدم رکھ دیا۔ آج اس کا شمار دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی ترقی کی اس لہر کی وجہ سے عرب ممالک کی بادشاہتیں بھی مجبور ہوئیں کہ عوامی فلاح اور ترقی کی اس دوڑ میں حصہ لیں۔ یو اے ای، قطر، سعودی عرب وغیرہ کی بادشاہتوں نے بھی اپنے وسائل سے عوامی فلاح اور ترقی کے ان گنت منصوبے بنا ڈالے۔
ترقی کی اس دوڑ میں چین و ہندوستان جیسے پڑوسی جو ہم سے کہیں پیچھے تھے، بہت آگے نکل گئے۔ ان کو تو چھوڑیے بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے ہیں۔ اب ہمارا کوئی موازنہ رہا ہے تو افغانستان ہی سے رہا ہے۔ ہم بہت فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم الحمدللہ ترقی کی دوڑ میں افغانستان سے آگے ہیں۔ زیادہ فخر کرنا چاہیں تو صومالیہ، موغادیشو اور کچھ اور افریقی ممالک سے موازنہ کرکے بھی اپنی ترقی پر اطمینان کا اظہار کرسکتے ہیں۔
تاہم کبھی کسی مغربی ملک کے سفر کا موقع ملے (جس کا امکان ایک عام پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر کے لیے اس لیے بہت کم ہوچکا ہے کہ اسے ویزہ ملنا مشکل ہے) یا کسی مشرقی ملک ہی جانے کا موقع مل جائے تو جاکر ضرور دیکھنا چاہیے کہ دنیا کی قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں اور ان کے حکمران اپنی عوام کی فلاح کے لیے کیا کیا منصوبے بناتے ہیں۔
یہ سوال اگر پیدا ہوجائے تو پھر اس کا جواب بھی ڈھونڈنا چاہیے کہ ہمارا ساری دنیا سے پیچھے رہ جانے کا سبب کیا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس کا ایک سادہ سبب بیان کر دیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے حکمران کرپٹ ہیں۔ مگر درحقیقت یہ بات درست نہیں ہے۔ کرپشن کے الزامات تو طیب اردگان اور مہاتیر محمد جیسے لیڈروں پر بھی لگے جنھوں نے اپنے ملکوں کو کچھ سے کچھ بنا دیا۔ پھر یہ کہ حکمرانوں نے کرپشن کی بھی ہو تو تنہا ان کی کرپشن کبھی ترقی کی راستے میں بنیادی رکاوٹ نہیں بنتی۔ پاکستان کا صرف ایک سال کا بجٹ کئی ہزار ارب کا ہوتا ہے۔ چند لیڈروں نے اگر زندگی بھر میں چند سو ارب کی کرپشن کر بھی لی تو اس سے ملک کا بیڑہ غرق ایسے نہیں ہوسکتا جیسے ہمارا ہوچکا ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ اس اصل مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر بربادی کے اس سفر میں ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور آخرکار فطرت کا قانون حرکت میں آئے گا اور خاکم بدہن ہمارا قومی وجود ختم ہوجائے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری آنکھوں کے سامنے سوویت یونین اپنی انتہائی طاقتور فوج اور ایٹمی ہتھیاروں کے باوجود ختم ہوگیا۔
ہمارا اصل مسئلہ ہماری سیاسی قیادت نہیں بلکہ فکری قیادت ہے جس نے پوری قوم کو انتہائی جذباتی اور منفی سوچ کا حامل بنا دیا ہے۔ ہمارے جذباتی ہونے کی ایک مثال وہ ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ یعنی دنیا بھر میں سیاستدانوں کی زندگی چند برس ہوتی ہے۔ لوگ بحیثیت حکمران ان کا انتخاب کرتے ہیں؛ اور اس کے بعد ان کو فارغ کر دیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں جذباتیت کا یہ عالم ہے کہ ہم سیاستدانوں سے عشق کرتے ہیں اور حد یہ ہے کہ تین تین نسلوں تک ان کو تمام تر نااہلی کے باوجود منتخب کرتے چلے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک شخص کسی طرح لیڈر بن جائے۔ پھر لوگ اس کے رومان میں ایسے گرفتار ہوتے ہیں کہ نکلنے کا نام نہیں لیتے۔ پاکستان کے ابتدائی بیس برسوں میں ہمیں پہلا قومی لیڈر بھٹو کی شکل میں ملا۔ ہم اس وقت ان کی تیسری نسل کے عشق میں گرفتار ہیں۔ اگلے بیس برسوں میں دوسرا قومی لیڈر نواز شریف کی شکل میں ملا۔ ہم ان کی دوسری نسل کے عشق میں گرفتار ہیں۔ اور پھر اگلے بیس برس بعد ہمیں تیسرا لیڈر عمران خان کی شکل میں ملا۔ سارے قرائن یہی ہیں کہ ایک گروہ کثیر عمران خان کے بھی عشق ہی کا شکار ہوچکا ہے۔ ہم نے اپنے جذباتی رویے کی اصلاح نہیں کی تو اگلے بیس برس بعد بھی کوئی لیڈر ملا تو قوم اسی طرح اس سے عشق کرے گی۔ جس کے بعد لیڈر تو مزے کرے گا اور قوم ذلت اور بربادی کی مزید پستیوں میں گرتی چلی جائے گی۔
جذباتیت کے ساتھ ہمارا ایک دوسرا مسئلہ ہماری وہ منفی سوچ ہے جس میں ہم اپنے دائرے میں تعمیری کام کرنے کے بجائے دوسروں پر تنقید کو کافی سمجھ لیتے ہیں۔ اس کو بھی ایک سیاسی مثال سے سمجھنا چاہیے۔
پچھلے الیکشن سے قبل عمران خان ایک بڑے قومی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ ان کی شہرت بہت اچھی اور دامن ہر طرح کی کرپشن سے پاک تھا۔چنانچہ 2013 کے الیکشن میں لوگوں نے انھیں بہت بڑی تعداد میں ووٹ دیے۔ ان کی پارٹی تحریک انصاف قومی الیکشن نہیں جیت سکی لیکن کے پی کے میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
اس موقع پر عمران خان کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ انتخابی نتائج سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود انھیں تسلیم کرلیں۔ وہ قومی اسمبلی میں ایک بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔ الیکشن کے قوانین میں اس طرح تبدیلی کروائیں کہ آئندہ دھاندلی کے امکانات کم سے کم ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ کے پی کے کو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ بنانے کا فیصلہ کرلیں۔ وہ پشاور میں دھرنا دے دیں۔ اپنی پوری ٹیم کو یہ بتائیں کہ اردگان کو ایک شہر استنبول ملا تھا، اس نے استنبول کو ایک بہترین شہر بنا کر پورے ملک ہی میں اقتدار حاصل نہیں کیا بلکہ اتنی عوامی تائید بھی حاصل کرلی کہ لوگ اس کے حق میں فوجی بغاوت سے ٹکرا گئے اور جان دے کر اس کی حکومت کو بچا لیا۔ یہی ہمیں کرنا ہوگا۔ پانچ سال میں ہمیں کے پی کے کو ایک ترقی یافتہ علاقہ بنانا ہوگا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس اتنا زیادہ بجٹ ہے کہ عمران خان جیسے آہنی عزم کے انسان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا کہ وہ پانچ سال میں کے پی کے کو یورپ کے برابر نہ سہی ملائیشیا اور چین کے برابر ضرور پہنچا دیتے۔
مگر چونکہ اس قوم کی تربیت برسہا برس سے منفی بنیادوں پر ہورہی ہے جس میں لوگ اپنے دائرے میں تعمیری کام کرنے کے بجائے دوسروں پر غصہ اتارنے کو اصل کام سمجھتے ہیں، اس لیے خان صاحب نے بھی وہی کیا جو قوم کا مزاج ہے۔ یعنی پانچ سالوں میں آدھا وقت انھوں نے دھرنے میں حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ضائع کیا اور باقی آدھا وقت پانامہ کیس کے پیچھے ضائع کیا۔ اور پانچ سال بعد دونوں صورتوں میں دیکھیے کہ حاصل کیا ہوا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ معزول نواز شریف مظلوم نواز شریف بن چکا ہے جس سے مقابلے کے لیے خان صاحب کو الیکٹ ایبلز لینے پڑ رہے ہیں۔ عدلیہ جیسے محترم ادارے کا وقار خاک میں مل چکا ہے۔ ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ بے شک لندن فلیٹ نواز شریف کی بیس پچیس سالہ پرانی کرپشن کی کمائی کا نتیجہ ہیں، مگر نواز شریف کو اس وجہ سے معزول نہیں کیا گیا، ان کی معزولی کی وجہ کچھ اور ہے۔ پاکستان کا سب سے مضبوط ادارہ فوج جو دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے بعد مقبولیت کے عروج پر تھا، عملاً اسے ایک سیاسی پارٹی کی طرح موجودہ صورتحال میں ایک فریق سمجھا جا رہا ہے۔ میڈیا چینلز کی اعتباریت ختم ہوچکی ہے۔ خود عمران خان کا حال یہ ہے کہ اقتدار کے لیے انھیں ان ہی الیکٹ ایبلز کو اپنی پارٹی میں لینا پڑ رہا ہے جن کے خلاف وہ جنگ کرنے اٹھے تھے۔ اس کے بعد چاہے عمران خان الیکشن جیت جائیں، پاکستان کے عوام تبدیلی کی جنگ پہلے ہی ہار چکے ہیں۔
اس کے برعکس عمران خان تعمیر کے راستے پر چلتے تو کے پی کے کا صوبہ چاہے یورپ اور ملائیشیا جیسا نہ بنتا، پاکستان کے دوسرے صوبوں سے بہت زیادہ آگے نکل چکا ہوتا۔ پورے ملک سے لوگ پشاور، چارسدہ، سوات اور کالام جاتے اور واپس آکر کہتے کہ 2018 میں ہمیں ہر حال میں عمران خان کو اقتدار میں لانا ہے۔ اس کے بعد 2018 میں عمران خان الیکشن میں کھمبے بھی کھڑے کرتے تو لوگ انھی کھمبوں کو جتوا دیتے۔ اس لیے کہ لوگ اندھے نہیں ہوتے۔ انھیں کام نظر آتا ہے۔ لیکن کام نہیں ہوگا تو زبانی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ پھر آپ کو الیکٹ ایبلز لینے پڑتے ہیں۔ اپنے ہی اصولوں پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
یہ ہے ہمارا اصل مسئلہ۔ ہم اپنی زمین میں فصل اگانے کے بجائے دوسروں کو ان کی زمین کی فصل خراب کرنے کا طعنہ دینے کو اصل کام سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ سوچ نہیں بدلتی ،تب تک بڑے سے بڑا لیڈر بھی اسی قومی مزاج کا شکار ہوگا جو ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ پھر لوگ جذباتی ہوکر اپنے لیڈروں کا اندھا دفاع کرتے رہیں گے اور لیڈر ان کا ستحصال کرتے رہیں گے۔ لوگ منفی انداز فکر کا شکار رہیں گے۔ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کو الزام دیتے رہیں گے۔ اپنے دائرے میں تعمیری کام کرنے کے بجائے دوسروں پر تنقید کرتے رہیں گے۔ اور دوسری طرف بھارت اور بنگلہ دیش کے بعد نیپال، بھوٹان اور سری لنکا بھی ہم سے آگے نکل چکے ہوں گے۔
الیکشن کا نتیجہ جو بھی نکلے، قوم اطمینان رکھے کہ کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ ہمارے سارے مسائل ایسے ہی رہیں گے۔ تبدیلی تب آئے گی تب یہ جذباتیت اور منفی سوچ ختم ہوگی۔ ہمارے مسائل کا حل قوم کے رویے میں تبدیلی ہے۔ ہمیں اندھی جذباتیت سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے دائرے میں تعمیری کام پر یقین رکھنا ہوگا۔ قوموں کی زندگی میں دس بیس سال کچھ نہیں ہوتے۔ 2018 کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے 2023 بھی آجائے گا۔ لوگ اگر جذباتی بنے رہے قدرت اسی طرح انھیں سزا دے گی جس طرح آج دے رہی ہے۔ لوگ اگر اپنے دائرے میں تعمیری کام کے لیے تیار نہیں ہوئے تو قوم اسی طرح تباہ ہوتی رہے گی۔
لیکن اگر ہم نے اپنا رویہ بدل لیا تو سب کچھ بدلنے لگے گا۔ 2023 نہ سہی 2028 میں سہی ہمیں ایک بہتر قیادت مل جائے گی۔ اس لیے کہ جمہوری دور میں برے حکمران اچھے لوگوں پر زیادہ عرصے تک حکومت نہیں کرسکتے۔ جمہوریت میں برے حکمران صرف برے لوگوں پر مسلط ہوتے ہیں۔ اچھے لوگ برے حکمرانوں کو چند برسوں میں اٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔ مگر یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو جذباتی انداز فکر کے بجائے معقولیت سے کام لیتے ہیں۔ جو تعمیری سوچ پر یقین رکھتے ہیں۔ جو نہ ملے ہوئے کو بھول کر ملے ہوئے کی تعمیر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی ترقی کا راستہ ہے۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔