تخلیقی صلاحیت ۔ ابویحییٰ
علامہ اقبال مسلمانوں کی علمی روایت کے وہ آخری بڑے آدمی ہیں جن کی شخصیت پر ایک عمومی نوعیت کا اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان کی فکری رہنمائی بجا طور پر انہیں دور جدید میں امت مسلمہ کا سب سے موثر فکری لیڈر بناتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیا میں تو ان کی یہ حیثیت اتنی مسلمہ ہے کہ اس خطے کا شاید ہی کوئی مفکر اور مصنف ہوگا جو بلا واسطہ یا بالواسطہ ان سے متاثر نہ ہو۔
اقبال کو جس چیز نے عظمت کے اس مقام پر فائز کیا ہے وہ ان کی تخلیقی صلاحیت ہے۔ شعر بہت لوگ کہتے ہیں۔ اسی طرح لیڈر اور مفکر بھی بہت ہوتے ہیں۔ ما قبل تقسیم کا مسلم انڈیا شعرا اور لیڈروں دونوں کے معاملے میں خود کفیل تھا۔ مگر اقبال کی تخلیقی صلاحیت کی عظمت یہ تھی کہ انہوں نے جو بات کہی وہ اس وقت کہی جب دوسروں کے ہاں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ ان کا وژن ہمیشہ دوسروں سے بہت آگے دیکھنے اور ان کی منفرد قوت بیان اسے بیان کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ جدید و قدیم اور مشرق و مغرب کے سارے علوم سے واقف تھے۔ قانون، سیاست، مذہب اور فلسفے سب پر انہیں گہری دسترس حاصل تھی۔ پاکستان کا وجود ان کے علم و بصیرت کا ایک زندہ نمونہ ہے۔ ایک مغلوب اور مایوس قوم کو معجزانہ شاعری سے زندہ کرنا، دور جدید کے تصور قومیت کے مطابق اسے ایک قوم بنانے کے لیے ملی اساس فراہم کرنا، خطبہ الٰہ آباد میں اس ملت کا سیاسی نصب العین واضح کرنا، حاکم انگریزوں کے سامنے اس قوم کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ایک بہترین لیڈر قائداعظم کا انتخاب کرنا، صدیوں سے تقلید و جمود میں جکڑی اس قوم کی مذہبی فکر کی تشکیل جدید کے لیے خطبات دینا؛ یہ وہ کارنامے ہیں جن پر جب بھی غور کیا جاتا ہے تو سمجھ نہیں آتا کہ ایک آدمی اس درجہ کی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیسے کرسکتا ہے۔
تاہم پاکستان کی شکل میں دنیا کے نقشے پر سب بڑی مسلم اور دنیا کی پانچویں بڑی ریاست کا ظاہر ہوجانا یہ بتاتا ہے کہ اقبال کتنے بڑے آدمی تھے۔ آج بہت سے لوگ پاکستانیوں کی موجودہ حالت دیکھ کر اقبال پر تنقید کرتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حالت کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اقبال کے سیاسی اور ملی وژن کو تو قبول کیا لیکن ان کے فکری وژن کو کم و بیش رد کر دیا یا کم از کم اس سے واقف نہیں ہیں۔ اس ناواقفیت کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ اقبال نے اپنی فکر زیادہ تر فارسی شاعری میں پیش کی یا پھر ان خطبات میں جن کو سمجھنا اور جن سے استفادہ کرنا اکثر و بیشتر لوگوں کے بس کی بات نہیں۔
اقبال کا وہ فکری وژن جو ہم نے رد کر دیا اور جس کا رد کرنا ہماری تباہی کی وجہ بن چکا ہے، اسے اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ تخلیقیت ہے۔ یعنی تقلید اور جمود کی زنجیروں کو توڑ کر ایک نئی دنیا کی تعمیر۔ ظاہر ہے کہ اس تعمیر کے لیے تخلیقی صلاحیت چاہیے۔ یہ اگر ہے تو نئی دنیا تخلیق ہوسکتی ہے اور ہر طرح کے حالات میں راستہ نکل سکتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اقبال نے ’جاوید نامہ‘ میں اللہ تعالیٰ کے کلام اور پیغام کی شکل میں اس طرح بیان کیا ہے۔
ہر کہ او را قوت تخلیق نیست
پیش ما جز کافر و زندیق نیست
از جمال ما نصیب خود نبرد
از نخیل زندگانی بر نخورد
یعنی الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ جو تخلیقی سوچ نہیں رکھتا ہمارے نزدیک کافر و زندیق ہے۔ اس نے ہمارے جمال سے اپنا حصہ نہیں پایا اور وہ زندگی کے درخت کا پھل کھانے سے محروم رہا۔ تخلیقی قوت قوموں سے جب کبھی ختم ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ان میں تخلیقی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کوئی انسان ایسا پیدا نہیں کرتے جس میں کسی نہ کسی پہلو سے کوئی تخلیقی صلاحیت نہ ہو۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ تقلید و جمود میں جکڑی ہوئی ایک قوم میں تخلیقی بات کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر طرف سے مخالفت کا طوفان اٹھ جائے گا جسے سہنے کے لیے بڑی جرات چاہیے ہوتی ہے۔ اس کے لیے انسان کو اپنی بات پر بہت اعتماد ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ جرات اور اعتماد علم سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ خود اقبال کو بہت سی مخالفتوں حتیٰ کہ کفر کے فتووں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اقبال جدید و قدیم اور مغرب و مشرق کے علم کے عالم تھے اس لیے آخرکار جیت ان کی تخلیقی صلاحیت کی ہوئی۔ یہی وہ تخلیقی صلاحیت تھی جس نے پاکستان کے حصول کا معجزہ دکھایا اور یہی وہ تخلیقی صلاحیت ہے جو آج اگر پیدا ہوجائے تو گرداب میں پھنسے پاکستان کی کشتی ہر بھنور سے نکال سکتی ہے۔