شوق اور خوف ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی سورہ طہٰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس سورت کی آیت 17 میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ پوچھتے ہیں کہ موسیٰ یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے۔ اس کا جو جواب اس جگہ نقل ہوا اس میں بڑی بصیرت ہے۔
سیدنا موسیٰ نے کہا کہ یہ میرا عصا ہے۔ اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں، بکریوں کے لیے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے میرے دوسرے کام بھی ہوتے ہیں ۔ سوال کا اصل جواب تو وہی تھا جو انھوں نے پہلے جملے میں دے دیا کہ یہ میرا عصا ہے۔ مگر سوال کی نوعیت سے ان کو اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ان پر خصوصی عنایت ہوئی ہے۔ آسمان و زمین کا مالک کسی بندے سے براہ راست بات کرے اور وہ بھی ایک ذاتی سوال کی شکل میں۔ چنانچہ انھوں نے یہ بتانے کے بعد کہ میرے ہاتھ میں عصا ہے ، بصد شوق تفصیل سے یہ بتانا شروع کیا کہ اس عصا سے وہ کیا کیا کام لیتے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے یہ بتایا کہ وہ اس عصا پر ٹیک لگاتے ہیں ۔ یہ بتایاکہ وہ اس سے بکریوں کے لیے پتے جھاڑتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد آنے والا تیسرا جملہ یہ بتا رہا ہے کہ پچھلی دو باتیں کہتے ہوئے ان کو احساس ہوا کہ شوق اپنی جگہ لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ وہ کس ہستی سے بات کر رہے ہیں ۔ ان کا مخاطب وہ عالم الغیب ہے جس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں۔ چنانچہ خدا کی عظمت کا یہ احساس جیسے ہی تازہ ہوا انہوں نے اپنے کلام کو مختصر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے میرے اور بھی کئی کام ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے انسان کو جو تعلق ہونا چاہیے وہ بیک وقت شوق اور خوف کے جذبات کا امتزاج ہونا چاہیے۔ خدا کی ہستی کا یہ شوق اوراس کی عظمت کا یہ احساس ایک سینے میں کس طرح جمع ہوتا ہے، حضرت موسیٰ کا یہ کلام اس کی بہترین مثال ہے اور ہر اس شخص کے لیے بہترین نمونہ ہے جو اپنے رب سے ملاقات کا خواہشمند ہو۔