شک اور وہم ۔ ڈاکٹر محمد عقیل
میں پارک میں واک کر رہا تھا کہ اچانک محسوس ہوا کوئی میرے ساتھ ساتھ دوڑ رہا ہے۔ میں نے اگنور کیا لیکن آواز آتی رہی۔ میں نے اسپیڈ تیز کر دی تو لگا اس نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی ہے۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنی رفتار کم کر دی تو محسوس ہوا کہ اس نے بھی آہستہ سے بھاگنا شروع کر دیا ہے۔ اب میں سوچنے لگا کہ عجیب آدمی ہے، یا تو آگے نکل جائے یا پیچھے رہ جائے، ساتھ ساتھ کیوں بھاگ رہا ہے۔ میں اچانک رک گیا، تو یوں محسوس ہوا وہ بھی رک گیا ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر جاگنگ ٹریک کا جائزہ لیا تو ارد گرد کوئی بھی نہ تھا۔ کچھ دیر کھڑے ہوکر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ میری جیب میں گاڑی کی چابیاں تھیں جو میرے بھاگنے کی وجہ سے بج رہی تھیں۔
ہماری زندگی کے اکثر معاملات اسی قسم کے وہم اور شک سے آراستہ ہوتے ہیں جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ کبھی ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کسی رشتہ دار نے ہمیں چڑانے کے لیے اچھا لباس پہنا ہے، کبھی لگتا ہے کسی ساس یا بہو نے ہمیں تنگ کرنے کے لیے برتن توڑا ہے، کبھی محسوس ہوتا ہے کسی دوست نے جان بوجھ کر فون نہیں اٹھایا، کبھی لگتا ہے دفتر کے کسی کولیگ نے سازش کی بنا پر یہ مذاق کیا اور کبھی یہ لگتا ہے ہمارے کسی ساتھی نے ہمیں نیچا دکھانے کے لیے اپنی بات اونچی آواز میں کہی۔
یاد رکھیے، ان میں سے نوے فی صد شکوک محض وہم ہوتے ہیں اور یہ ہمارے دماغ کی جیب میں رکھی وسوسوں کی چابیوں کی بازگشت ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ہی وجود کی آوازوں سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ فلاں شخص ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ جب کبھی ایسا محسوس ہو تو ان آوازوں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں اور اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک پیچھا کرنے والے شخص کو وہم نہیں بلکہ یقین کی آنکھ سے نہ دیکھ لیں۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو ہم ایک ایسے فرضی دشمن کو شکست دینے کے لیے دوڑ دوڑ کر ہلکان ہوجائیں گے جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔