Take a fresh look at your lifestyle.

شہید کی حقیقت، انسان کی آزمائش ۔ ابویحیٰی

میری کتاب ”جب زندگی شروع ہوگی“ کو اللہ تعالیٰ  نے جو غیر معمولی قبولیت عطا فرمائی ہے وہ بلاشبہ اس کی مہربانی اور کرم فرمائی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے سے آخرت کے بارے میں قرآن و حدیث کے بیانات کی ایک واضح اور روشن تشریح لوگوں کے سامنے گئی ہے اور الحمد للہ روز حشر پر لوگوں کا ایمان بہت پختہ ہوا ہے۔ تاہم اس ضمن میں لوگوں کے ذہن میں پیدا ہونے والے کچھ سوالات مجھ تک آتے ہیں اور میں ان کے جواب دیتا ہوں۔ ایسے ہی کچھ سوالات کے جواب میں میں آج افادہ عام کے لیے قارئین کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ 

شہید کون ہے؟
ایک سوال شہید کے تصور کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ سوال کرنے والے دوست مبشر حنیف صاحب کے الفاظ میں یہ سوال کچھ اس طرح ہے۔
”ایک بات اگر آپ مناسب سمجھیں تو ذکر کیجئے گا کہ آپ نے ما شاء اللہ جنت میں جیسے صدیق، انبیاء وغیرہ کا انعامات کے حوالے سے جب زندگی شروع ہوگی میں کافی کرداروں کا تذکرہ کیا ہے لیکن شہداء کا ذکر نہیں ملتا جو فی سبیل اللہ قتال میں شہید ہوئے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے یا محض اتفاق ہے یا ہوسکتا ہے کہ میں ہی مِس کر گیا ہوں۔“ 
اس حوالے سے میرا جواب درج ذیل ہے۔
لفظ شہید قرآن مجید میں تقریباً ساٹھ مقامات پر مختلف شکلوں میں آیا ہے۔ یہ لفظ ہر موقع پر اپنے لفظی مفہوم یعنی شاہد یا گواہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے سوائے ایک موقع کے جہاں یہ اطلاقی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ قرآن مجید میں اصطلاحی طور پر اس کا مطلب حق کی گواہی دینے والے لوگ ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں چونکہ قرآن مجید ایک اجنبی چیز ہے اس لیے لوگ سرے سے اس بات سے واقف ہی نہیں کہ لفظ شہید کی حقیقت کیا ہے۔ ورنہ یہی وہ منصب ہے جس پر صحابہ کرام کو فائز کیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر گواہ ہوں اور وہ لوگوں پر(الحج 78:22)۔ یہی وہ کام ہے جو روزمرہ زندگی میں تمام اہل ایمان کو کرنا ہے، (نسائ 135:4)۔ یہی منصب ہے جو جنت کے چار کامیاب گروہوں میں سے تیسرا ہوگا یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔ (نسائ 69:4)۔

ہمارے ہاں یہ لفظ جن معنوں میں معروف ہے یعنی مقتول فی سبیل اللہ وہ قرآن مجید میں ایک جگہ اطلاقی طور پر استعمال ہوا ہے یعنی سورہ آلِ عمران آیت 140 میں یہ بیان ہوا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جان دے کر بھی حق کی گواہی دی۔ یعنی اس لفظ کا اصل مطلب حق کی شہادت ہے اور جو لوگ یہ کام کرتے ہوئے اپنی جان بھی نچھاور کر دیں گویا کہ ان کے شہید (حق کے گواہ) ہونے میں اب کوئی شک اور گنجائش نہیں رہی۔ یہی وہ مفہوم ہے جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے اور جو ہمارے ہاں عوامی سطح پر زیادہ مشہور ہوچکا ہے۔ ورنہ دین پر تحقیقی نظر رکھنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ لفظ شہید کی اصل کیا ہے، قرآن کریم میں یہ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ احادیث میں یہ لفظ صرف مقتول فی سبیل اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے بلکہ متعدد روایات میں یہ اپنے اصل مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسے روایت میں آتا ہے کہ ”انتم شہداء اللہ فی الارض“، (صحیح الجامع رقم، 6728 ,1490)۔ یعنی تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔ 

میں نے اپنے ناول میں مرکزی کردار کو اسی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں کہ اس میں کسی شہید یا اس کے مقام کا ذکر نہیں ہے۔ رہا یہ سوال کہ میں نے خاص طور پر کسی مقتول فی سبیل اللہ کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا تو یہ تا ثر اس پہلو سے درست نہیں کہ میں ایک مقام پر ایسے لوگوں کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ وہ بھی بڑے اعلیٰ  اجر کے حقدار ہوئے ہیں، (صفحہ210)۔ اسی طرح دوسرے ناول ”قسم اس وقت کی“ میں میں سیدنا یاسر اور سیدہ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شہادت اور ان کی عظمت کا بیان ہے۔

ویسے بھی یہ شہداُ (مقتول فی سبیل اللہ) دراصل ان شہدا کے ذیل میں ہی آجاتے ہیں جو سورہ نساء میں بیان ہوئے ہیں۔ آپ غور فرمائیے کہ میں نے تو قرآن مجید کے اس طریقے کو اختیار کیا ہے جس میں مقتول فی سبیل اللہ کو بھی شہید کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس ناول کی تالیف کا اصل مقصد ہر ہر قسم کے نیکوکاروں کا تفصیلی بیان نہیں ہے۔ کئی قسم کے اعلیٰ درجے کے جنتی ہیں جن کا میں نے ذکر نہیں کیا مثلاً اس میں نفلی روزے داروں کا ذکر نہیں جن کے لیے ایک حدیث کے مطابق جنت کا ایک خاص دروازہ یعنی ریان وقف ہے، (بخاری رقم 1896)۔ اس کے علاوہ بھی روزے داروں کے غیر معمولی فضائل بیان ہوئے ہیں جیسے ”الصوم لی و انا اجزی بہ بخاری“ (رقم 1894 مسلم2707)۔ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی عطا کروں گا۔ اعتراض کرنے والا ذہن تو اس پر بھی اعتراض کرسکتا ہے کہ ایسی عظیم فضیلت کے باجود روزہ داروں کا خصوصی ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ لیکن ہر معقول آدمی سمجھ سکتا ہے کہ میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ہر قسم کی نیکی کرنے والوں کا ایک کہانی میں احاطہ کیا جائے۔

میرا اصل مقصد حشر کی منظر کشی تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اہل جنت کی تمام اقسام کو گنوا دیا جائے اور ان کے تفصیلی معاملات بیان کیے جائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ لوگوں نے اس اصل مقصد کو سمجھا اور ہزاروں لوگوں کی اللہ نے زندگیاں بدل دیں اور لاکھوں لوگوں تک اسلام کی بنیادی دعوت کا پیغام پہنچ گیا۔ 

نوعمر بچوں کا انجام اور انسان کی پہلی زندگی
ایک بہن میرے اس نقطہ نظر کا پس منظر جاننا چاہتی تھیں جو غلمان کے حوالے سے میں نے بیان کیا تھا۔ اسی طرح میری اس رائے کی وجہ بھی جاننا چاہتی تھیں کہ انسان اس دنیا میں ہدایت کی جس سطح پر ہے، اس کا انتخاب اس نے خود کیا ہے۔ میں نے دو ای میل میں ان کو جواب دیا ہے۔ پہلے میں ذرا اجمال تھا جو دوسرے میں کھول دیا گیا ہے۔ یہ دونوں ای میل قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ 

پہلا ای میل
تاخیر کے لیے معذرت لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ میں انتہائی مصروف تھا۔ آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1۔ پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ اس مسئلے پر اہل علم کے مابین بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور بالخصوص ان بچوں کے بارے میں جو منکرین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں اور بچپن ہی میں انتقال کرجاتے ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے آپ مندرجہ ذیل لنک ملاحضہ فرمائیے:
http://www.ruqya.net/forum/showthread.php?t=7043

میں نے اپنی رائے اُن اہل علم کے مطابق قائم کی ہے جو ان بچوں کے لیے جنت کے قائل ہیں۔ میں نے صرف اتنا کیا ہے کہ وہ جواز مہیا کیا ہے جس کی بنیاد پر یہ بچے جنت میں جائیں گے۔ اور یہ جواز سر تا سر مالک حقیقی کی رحمت، عدل اور اسکی حکمت کی صفات پر مبنی ہے۔ اگر آپ کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی دلیل موجود ہے تو آپ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں۔

2۔ قرآن سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ کل انسانیت نے مجموعی طور پر دنیا کی اس آزمائش کو خود قبول کیا تھا جیسا کہ سورہ احزاب میں بیان ہوتا ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ  نے بہت واضح طور پر بیان کی ہے کہ انہوں نے انسان کو زبردستی اس امتحان میں مبتلا نہیں کیا ہے اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کتنے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔

اس طرح اس بات کو ماننا بھی ایک عقلی تقاضہ ہے کہ ہدایت کس کو کتنی ملنی ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ زبردستی طے نہیں کرتے۔ ورنہ ابوجہل حشر کے دن یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ میرے ساتھ ناانصافی تھی کہ مجھے پیغمبر کے زمانے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ اس لیے کہ پیغمبر کے انکار کی سزا سب سے بدتر ہے۔ اگر مجھے اُس زمانے میں نہ بھیجا جاتا تو کم از کم میری سزا تو کم ہوتی یا ہوسکتا ہے کہ میں اسلام ہی قبول کرلیتا۔ یہی بات جزا کے بارے میں بھی درست ہے۔ آج کے زمانے کا سب سے نیک انسان بھی حضرت ابوبکر ؓ کی برابری نہیں کرسکتا۔ اس بات کو بھی کوئی نیک انسان چیلنج کرسکتا ہے کہ اسے پیغمبر کے زمانے میں پیدا نہ کرکے اس کا اجر کم کر دیا گیا ہے۔

اس لیے میری عاجزانہ رائے اس بارے میں یہ ہے کہ ہر انسان کی ہدایت اور آزمائش کا درجہ بھی اُس کا خود کا چنا ہوا ہے۔ یہ بات قرآن سے اس طرح واضح ہوتی ہے کہ نہ صرف وہ یہ بیان کرتا ہے کہ انسان نے خود آگے بڑھ کر اس امانت کا بوجھ اٹھایا تھا بلکہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہر انسان اُس وقت انفرادی طور پر موجود تھا۔ اس لیے بظاہر کوئی وجہ اس بات میں مانع نہیں کہ ہر انسان کو یہ اختیار بھی دیا جاتا کہ وہ اپنی آزمائش کا درجہ بھی خود چن لے۔ یہی سبب ہے کہ جن لوگوں نے زیادہ اجر کی وجہ سے سخت آزمائش کا انتخاب کیا تو اُن کے لیے سزا بھی نتیجتاً سخت ترین ہے جیسا کہ رسولوں کے زمانے کے لوگ۔ یہ میرا نقطہ نظر ہے جو کہ میں نے قرآن کے ان نظائر کی بنیاد پر قائم کیا ہے لیکن اس سے اختلاف کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ 

دوسرا ای میل
میرے اس جواب پر بہن نے اپنے نقطہ نظر پر اصرار کیا جس کے بعد میں نے اپنی بات کی کچھ اور وضاحت کی جو درج ذیل ہے۔
دیکھیے جو نقطہ نظر آپ بیان فرما رہی ہیں وہ اس شخص کے لیے تو یقینا قابل قبول ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اورعدل پر مکمل ایمان ویقین رکھتا ہو مگر جو شخص اعتراض کرنے کی جگہ پر آجائے یہ جواب اسے بالکل مطمئن نہیں کرسکتا۔ اس بات کو مثال سے یوں سمجھیں کہ کسی برس مقابلے کے امتحان میں امیدواروں کے ایک گروپ کا امتحان لیتے وقت انہیں ایک ہی پرچہ دینے کے بجائے الگ الگ پرچے دے دیے جائیں اور ان میں سے بعض کے پرچے انتہائی سخت ہوں اور بعض نرم تو لازماً کہا جائے گا کہ یہ عدل نہیں ہوا۔ جب تک کہ اس عمل کی کوئی معقول وجہ بیان نہ کی جائے۔ اب اس عمل کی ایک ہی معقول اور قابل قبول وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ الگ الگ پوسٹ کے امیدوار تھے تبھی سب کو الگ الگ پرچہ دیا گیا۔

اب یہ سمجھیے کہ اس دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کسی شخص کے اچھے برے حالات کو چھوڑ دیجیے کہ اس پر آخرت کی نجات منحصر نہیں۔ اصل مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ بعض لوگ ہدایت کے لحاظ سے ایسے حالات میں پیدا ہوتے رہے ہیں کہ ایمان قبول کرنا انتہائی مشکل کام تھا۔ وہ ایمان قبول نہیں کریں گے تو آخرت میں لازماً مارے جائیں گے۔ مثال کے طور پر انبیا کے زمانے میں جو لوگ پیدا ہوتے ہیں بالعموم ان کا آبائی مذہب شرک ہوتا ہے جس سے انہیں گہرا تعصب ہوتا ہے۔ اب ایک طرف نبی اور رسول ہے جس کی بات نہ ماننے کا نتیجہ جہنم ہے اور دوسری طرف اپنا تعصب ہے جسے چھوڑنا انتہائی مشکل ہے۔ مزید یہ کہ ایمان لانے کی شکل میں زبردست آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ یہ کتنا سخت امتحان ہے۔ اس کے برعکس میں اور آپ پیدائشی مسلمان ہیں۔ ایمان قبول کرنا ہمارے لیے سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی نبی کے انکار کرنے والے کے لیے اگر اس کے کفر کی بنیاد پر جہنم کا فیصلہ سنا دیا جائے تو وہ سوال کرے گا کہ آپ نے مجھے اتنا مشکل امتحان دیا ہی کیوں تھا۔ مجھے بھی کسی مسلمان کے گھر پیدا کردیا ہوتا تاکہ میں اس سخت آزمائش میں پڑتا ہی نہیں۔ اب جواب میں اسے یہ بتایا جائے کہ اللہ کے علم و حکمت کا تقاضہ تھا کہ تمھیں اسی دور میں پیدا کیا جائے تو ظاہر ہے کہ یہ اس کے سوال کا جواب نہیں ہے۔ وہ صاف کہے گا کہ میرے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ نرمی کی گئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہستی سے زیادہ عدل کرنے والا کوئی نہیں نہ اس کی کسی سے رشتےداری ہے۔ 

میری بہن یہ ہے وہ سوال جو برسہا برس سے لوگ مجھ سے کرتے رہے ہیں۔ اس کا کوئی معقول جواب ہمارے ہاں نہیں دیا جاتا۔ اس عاجز طالب علم کے سامنے اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن کے مطابق اللہ تعالیٰ بار بار کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف عدل کرنے والے ہیں بلکہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم کرنے والے نہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی ایک ملتے جلتے معاملے میں ہمیں ایک اصولی اطلاع دے دی ہے کہ انسانیت اس امتحان میں بالجبر نہیں بھیجی گئی بلکہ اپنی مرضی سے اآئی ہے۔ ایک موقع پراللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے سامنے ارادہ و اختیار کی یہ امانت پیش کی تھی۔ تمام مخلوقات نے اس پیشکش کو رد کر دیا تھا مگر انسان نے اسے قبول کرلیا۔ چنانچہ سورہ احزا ب کی آخری آیت میں ”لیعذب اللہ المنافقین….“ کے الفاظ سے واضح کر دیا گیا ہے کہ سزا جزا برپا ہونے کی وجہ ہی یہ ہے کہ انسان نے اپنی مرضی سے یہ سب قبول کیا ہے اور پھر اس کے تقاضے نہیں نبھائے۔ 

یہ مقام اگر انسانیت کے بارے میں مجموعی طور پر ایک بات بیان کرتا ہے تو یہ اشارہ بھی کرتا ہے کہ انفرادی طور پر بھی یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالی نے بالجبر افراد کو مختلف نوعیت کے امتحان میں ڈال دیا ہو بلکہ ان سے یقینا ان کی مرضی لی گئی ہوگی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ قرا ٓن کے مطابق تمام اولاد آدم کو پہلے ایک دفعہ پیدا کیا جاچکا ہے۔ 

یہی وہ بات ہے جسے میں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ جس طرح انسانیت کو بالجبر دنیا میں دھکا دے کر نہیں بھیجا گیا اسی طرح افراد کا معاملہ ہوا ہوگا۔ بعض لوگوں نے جب انبیا کا ساتھ دینے کا اجر دیکھا تو وہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ بے دریغ اس امتحان میں کود پڑے۔ یہ سوچے بغیر کہ نہ ماننے کی شکل میں عذاب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اسی پر اللہ کا یہ تبصرہ ہے کہ ”انہ کان ظلوما جہولا“۔ یعنی اجر دیکھا مگر یہ نہیں دیکھا کہ عذاب کیسا ہوگا۔ مگر اب تم اس امتحان میں کود گئے ہو تو بہرحال میرا قانون تو حرکت میں آئے گا اور منافقین و مشرکین کو عذاب اور اہل ایمان کو اجر مل کر رہے گا۔ یہ ہے میرے نزدیک اس آیت کی درست تاویل اور یہ ہے اس اعتراض کا جواب۔ میرے نزدیک اس کو نہ مانا جائے تو اللہ تعالیٰ  کے عدل پر زبردست سوالات پیدا ہوجائیں گے۔

تاہم میں پھر عرض کردوں کہ یہ میرا نقطہ نظر ہے۔ آپ چاہیں تو اسے نہ مانیں لیکن پھر اس سوال کا کوئی معقول جواب آپ کو دینا ہوگا۔ صرف ایمان کے بیان سے کام نہیں چلے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ ایمان کی بات کرکے لوگوں کو خاموش کرا دیا جائے۔ اب ہمیں سوالوں کے معقول جواب دینا ہوں گے۔
والسلام علیکم