سیرت مصطفٰی بے مثل باخدا ۔ ابو یحییٰ
حلم اور صبر کسی انسان کی شخصیت کو جاننے کا سب سے زیادہ اہم پیمانہ ہوتا ہے۔ پھر حلم کو جانچنے کے بھی کئی مقامات ہوسکتے ہیں جن میں سے دو ایسے ہیں جو کسی انسان کے حلم کا آخری پیمانہ ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص نے اپنی اولاد کے حوالے سے پیش آنے والے صدمات پر کس رویے کا مظاہرہ کیا اور دوسرا یہ کہ اپنے دشمنوں کے ظلم و زیادتی کے باوجود ان پر قابو پانے کے بعد انسان کا رویہ کیسا رہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ان دونوں مقامات پر حلم، صبر، برداشت اور عفو و درگزر کے آخری مقام پر نظر آتی ہے۔ پہلے اولاد کے معاملے کو لے لیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے متعدد اولادوں سے نوازا تھا۔ حضرت خدیجہ سے آپ کی چار صاحبزادیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں۔ جبکہ دو بیٹے حضرت قاسم اور حضرت عبد اللہ پیدا ہوئے جن کا لقب طاہر و طیب تھا۔ آپ کے ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم بی بی ماریہ سے پیدا ہوئے۔
حضرت فاطمہ کو چھوڑ کر آپ کی تمام اولادیں آپ کی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ تینوں بیٹے بچپن کی عمر ہی میں انتقال کر گئے۔ جبکہ تینوں بیٹیاں عین جوانی میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ حضرت فاطمہ کا انتقال بھی نبی کریم کی رحلت کے صرف چھ ماہ بعد ہوگیا۔ یہ باتیں کتابوں میں پڑھنا بہت آسان ہے۔ لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ ہم میں سے کسی شخص کے ساتھ اگر یہ سانحہ پیش آجائے تو کیا ہو گا۔ ہم اپنی اولاد کا معمولی سا دکھ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ مگر سرکار دو عالم کی ذات پر یہ آزمائش ٹوٹی کہ تینوں بیٹے بچپن کی اس عمر میں جب انسان بچوں کی ایک ایک ادا پر نثار ہو رہا ہوتا ہے، انتقال کر گئے اور بیٹیاں جوانی کی اس عمر میں جب موت کا تصور کرنا بھی بوجھل معلوم ہوتا ہے خالق حقیقی سے جاملیں۔
مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صدمات کو کمال حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا۔ آپ کے آخری صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال جنگ تبوک کے بعد بالکل آخری دور میں ہوا جب آپ کے وہ الفاظ تاریخ میں نقل ہوگئے جو آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمائے تھے: ’’ہماری آنکھیں بہہ رہی ہیں، دل افسردہ ہیں، مگر ہم زبان سے صرف وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے‘‘۔ دنیا میں کوئی اور شخص ہے جو صبر و برداشت کی یہ نظیر پیش کرسکے۔
دشمنوں کے معاملے میں بھی آپ کا حلم درجۂ کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ آپ کو اللہ کے راستے میں ہر وہ تکلیف دی گئی جس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے اپنے قریب ترین رشتے داروں اور ہم قبیلہ لوگوں کی بدترین مخالفت جھیلی۔ صبح و شام طرح طرح کے توہین آمیز کلمات، خطابات اور طنزیہ جملے سنے۔ ہر طرح کا الزام، بہتان، ہجو گوئی، استہزا اور سوشل بائیکاٹ سہا۔ عین حرم پاک میں، مکہ کے بازاروں میں اور طائف کے پہاڑوں پر آپ اور آپ کے ساتھی ہر طرح کی مخالفت، ذلت اور تشدد کا شکار رہے۔ ہجرت کے بعد کبھی جنگ و جدل کی سختیاں جھیلیں تو کبھی محبوب ترین رشتے داروں اور عزیزوں کی کفار کے ہاتھوں انتہائی دردناک موت کا سانحہ جھیلا۔ کبھی یہود و منافقین کے ہاتھوں اپنے اہل خانہ پر بدترین بہتانوں کو برداشت کیا تو کبھی اپنی ذات کے حوالے سے غلیظ اسکینڈلوں کو سہا۔ مگر کبھی بددعا دی، نہ انتقام لیا۔
پھر ایک ایک کر کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہر ہر دشمن پر قابو دے دیا۔ آپ چاہتے تو ہر دشمن کو ہلاک کر دیتے اور کچھ نہ ہوتا۔ مگر رحمت للعالین نے ہر دشمن کو معاف کر دیا۔ ہر ظالم کو بخش دیا۔ ہر قاتل کو چھوڑ دیا۔ جس نے معافی مانگی، جس نے سر جھکایا صرف وہی نہیں بخشا گیا بلکہ بھاگنے والے بھی اس بارگاہ سے پروانۂ عافیت پا گئے۔ اس حلم کے آگے ہر سر ڈھے گیا۔ ہر گردن جھک گئی۔ ہر دشمن دوست اور ہر مخالف گرویدہ ہوگیا۔
صبرِ مصطفی اور سیرتِ مصطفی باخدا بے مثل ہے۔ مگر یہی صبر وہ وصف ہے جس کا کوئی ادنیٰ پرتو بھی مصطفی کے ’’عاشقوں‘‘ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔