سراب اور سچائی ۔ ابویحییٰ
’’اگر آپ ایک ارب پتی بزنس مین کے ہاں پیدا ہوتے یا آپ کے والد اس ملک کے وزیر اعظم ہوتے تو آپ کے محسوسات کیا ہوتے؟‘‘، عید کی ملاقات میں عارف سے جب کسی نصیحت کے بارے میں کہا گیا تو انھوں نے حاضرین کے سامنے ایک سوال رکھ دیا۔
ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ’’زندگی بدل جاتی۔ بہت اچھا لگتا۔ کوئی مشکل، مشکل نہ رہتی۔‘‘، اس طرح کے کئی جملے سننے کے بعد عارف نے کہا:
’’وزیر اعظم بہت معمولی ہستی ہوتا ہے۔ لوگ جب چاہیں اس کی حکمرانی چھین لیں۔ اس کے خلاف بغاوت ہوسکتی ہے۔ اس کا اقتدار کبھی بھی ختم ہوسکتا ہے۔ یہی معاملہ بزنس مین کا ہے جو دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ اس کا کاروبار تباہ ہوسکتا ہے۔‘‘، عارف لمحے بھر کے توقف کے بعد گویا ہوئے۔
’’اس لیے ان کی اولاد نہ ہونے پر افسوس نہ کریں۔ خوشی اس پر منائیں کہ آپ کو اللہ نے اپنے بندے کے طور پر پیدا کر دیا ہے۔ خوشی اس پر منائیں کہ اس نے آپ کو جنت کا راستہ دکھا دیا ہے۔ اس راستے پر چل کر بہت جلد ساری دنیا کا اقتدار آپ کے قدموں میں ہوگا۔ ساری دنیا کے سونے چاندی سے زیادہ دولت آپ کے پاس ہوگی۔ ہر نعمت اور کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔‘‘
عارف کی بات ابھی جاری تھی کہ مجلس میں نئے آنے والے ایک فلسفی بول پڑے: ’’مذہب کا سراب‘‘۔ عارف نے مسکرا کر انھیں دیکھا اور کہا:
’’ہماری آنکھ کے سامنے ایک بچہ عدم سے وجود میں آتا ہے۔ اس کی ماں کا خون معجزانہ طور پر اس کے لیے دودھ بن جاتا ہے۔ یہ تو سراب نہیں۔ جب پیٹ کی قبر سے زندگی نے جنم لیا تو یہ معجزہ ہوگیا۔ جب زمین کی قبرسے زندگی دوبارہ پھوٹے گی تو وہ معجزہ بھی ہوجائے گا۔ خدا سراب نہیں سچائی ہے۔ اس کے فیض نے اس قاتل کائنات میں زمین کی یہ جنت بنا دی ہے۔ عنقریب اس کا فیض ختم نہ ہونے والی جنت بنائے گا۔ مگر یہ جنت بندوں کو ملے گی۔ مجرموں کونہیں۔‘‘، عارف خاموش ہوگئے۔ اب لوگوں کے سوچنے کا وقت تھا کہ وہ بندے ہیں یا مجرم۔