سایہ اور بچی ۔ ابویحییٰ
یہ ایک مووی کلپ (Movie Clip) تھا، جس کا نام شیڈو یعنی سایہ تھا۔ میں نے اسے کمپیوٹر پر چلانا شروع کیا تو ایک دلچسپ منظر سامنے آیا۔ یہ ایک بچی تھی جو آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ دھوپ کی وجہ سے اس کے ساتھ اس کا سایہ بھی نظر آرہا تھا جو اس کے قد سے کافی بڑا تھا۔ چلتے چلتے جب اس کی نظر اپنے سایہ پر پڑی تو وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ اس کے ساتھ اس کا سایہ بھی اس کی طرف بڑھا۔ اس پر وہ مزید گھبرائی اور رونے لگی۔ پھر وہ دیر تک ادھر ادھر ہوتی رہی مگر سایہ اس کے ساتھ ہی چپکا رہا۔ اس کے ساتھ یہ وڈیو کلپ ختم ہوگیا۔
میں دیر تک اس ریکارڈنگ پر غور کرتا رہا جسے کسی نے ایک دلچسپ منظر سمجھ کر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا تھا۔ میرے لیے اس منظر میں تفریح کی تو کوئی بات نہ تھی، نصیحت کی ضرور تھی۔ یہ وسیع تر پس منظر میں انسانی زندگی کی بھرپور عکاسی تھی۔ انسان کو پیش آنے والے مسائل و آلام زندگی کا ناگزیر حصّہ ہیں۔ انسان ان سے گھبرا کر بھاگتا ہے اور یہ سائے کی طرح زندگی کے ہر موڑ پر انسان کا پیچھا کرتے ہیں۔ سائے کی طرح مصائب بھی ہمیشہ انسان کو اپنی برداشت سے زیادہ بڑے محسوس ہوتے ہیں۔ انسان ان سے بچنا چاہتا ہے، مگر موت تک یہ مصائب انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
تاہم ان مصائب کو دیکھنے کا ایک دوسرا انداز بھی ہے۔ بالکل اسی طرح، جس طرح سایہ کی حقیقت سمجھنے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہوتا ہے۔ یعنی سایہ بظاہر انسان کے وجود کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے، مگر درحقیقت یہ بتاتی ہے کہ انسان اس وقت روشنی میں کھڑا ہے نہ کہ تاریکی میں۔ کیونکہ سایہ اس وقت بنتا ہے جب انسان پر روشنی پڑے۔ اندھیرے میں کبھی سایہ انسان کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سایہ اپنی ذات میں کوئی مستقل شے نہیں بلکہ روشنی کا سائڈ افیکٹ ہے۔ ٹھیک اسی طرح مصائب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور مغفرت کے ساتھ بندے کی طرف متوجہ ہیں۔ اس کے نور کی روشنی ہے، جس نے انسان کے وجود کا احاطہ کرلیا ہے۔ اور مصائب اسی نور کا سائڈ افیکٹ ہیں۔
انسان ان مصائب کی حقیقت سے واقف نہ ہو تو وہ ساری زندگی مصائب کے سائے سے خوفزدہ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو امتحان کی جس آزمائش میں اتارا ہے اس کا ایک بہت بڑا حصہ تو ان نعمتوں پر مشتمل ہے جو ہرلمحہ ہمیں حاصل رہتی ہیں۔ ہوا، پانی، لباس، خوراک، اعضا و قویٰ، عقل و فہم، رشتے ناطے، شعور و احساس غرض نعمتوں کی اتنی اقسام ہیں کہ اگر انھیں گننے کی کوشش کی جائے تو ان کا شمار ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تمام نعمتیں اس لیے دیتے ہیں کہ ہم ان کا شکر ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کی ابدی نعمتوں کے حقدار بنیں۔ مگر انسان ان کو معمولی چیز سمجھنے لگتا ہے۔ وہ شکر کرنے کے بجائے غفلت اور معصیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ رویہ انسان کو جہنم میں پہنچا سکتا ہے۔
ایسے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہوتا ہے۔ انسان کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسے جان، مال اور آبرو کا کوئی نقصان پیش آجاتا ہے۔ اس سے مقصود انسان کو ایذا دینا نہیں بلکہ ان نعمتوں کا احساس دلانا ہوتا ہے جو اسے پہلے ہی سے حاصل ہوتی ہیں مگر انسان انہیں اپنا حق سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہی انسان کی آزمائش کا دوسرا پہلو ہے۔ یعنی جو نعمت چھن گئی ہے، جو مصیبت آگئی ہے اس پر صبر کرے اور خدا سے اجر کی امید رکھے۔ خدا کے حضور استغفار کرے۔ اپنی کمیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ مگر بدقسمتی سے اکثر انسان اس بچّی کی طرح بن جاتے ہیں جو اپنے سایہ کو دیکھ کر ڈر گئی تھی اور رونے لگی تھی۔ وہ مصائب پر صبر کے بجائے آہ و زاری کرتے ہیں۔شکوے شکایت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مشکلات انہیں خدا سے قریب کرتی ہیں اور نہ ان کی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہیں۔
مسائل زندگی کا ناگزیر حصّہ ہیں۔ ان سے بچا تو نہیں جاسکتا، مگر دنیا و آخرت دونوں کی زندگی ضرور بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ مصائب انسان کے لیے روشنی کی علامت بن جائیں۔ وہ جان لے کہ یہ زندگی کا تاریک پہلو نہیں بلکہ روشن تر پہلو ہے۔ یہ اس روشنی کی علامت ہے جس کے ساتھ مالک دو جہاں اپنے بندے کی طرف متوجہ ہے۔ یہ روشنی خدا کے قرب کی روشنی ہے۔ یہ روشنی جنت کی نعمتوں کی روشنی ہے۔