سرکار کے ساتھی ۔ ابویحییٰ
انسانی شخصیت چار چیزوں سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ فطرت میں موجود خیر و شر کے داعیات، وراثت میں ملا ہوا مزاج اور رجحانات، ماحول اور حالات کے اثرات اور تعلیم و تربیت کے ثمرات۔ یہ چاروں چیزیں وہ ہیں جو انسان کے شعوری زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنا اثر دکھا چکی ہوتی ہیں۔ فطرت اور وراثت تو پیدائشی ہوتی ہے جبکہ ماحول گھر اور خاندان وغیرہ بچپن اور تعلیم و تربیت لڑکپن میں مل چکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد کم و بیش پندرہ برس کی عمر تک جب انسان شعوری زندگی کا آغاز کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر اس کی شکل و صورت کی طرح اس کی شخصیت اور نفسیات کی صورت گری بھی اس سے پوچھے بغیر کرچکی ہے۔
یہ بظاہر زیادتی ہے۔ مگر درحقیقت یہ امتحان ہے جس میں انسان کا اصل ہتھیار عقل و شعور اور ارادے کی وہ طاقت ہے جس کو استعمال کر کے انسان اپنی شخصیت کی جس طرح چاہے تشکیل نو کرلے۔ عقل اور ارادہ انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے انسان نے زمین و آسمان کو اپنی مرضی کے تابع کرلیا ہے۔ ان کی مدد سے انسان خلا میں سفر کرتا، بادلوں سے اونچا اڑتا، سمندر کا سینہ چیرتا، زیر آب تیرتا اور زمین پر کسی بھی حیوان سے زیادہ تیز چل سکتا ہے۔
انسان چاہے تو یہی عقل اور ارادہ استعمال کر کے وہ اپنی فطرت میں دبے خیر کو اتنا طاقتور بنا سکتا ہے کہ وراثت، جبلت، ماحول، حالات اور ابتدائی تعلیم و تربیت کے ہر برے اثر کو قابو میں لاسکتا ہے۔ عقل و ارادے کی بنیاد پر اپنی شخصیت، نفسیات، ترجیحات، تعصبات اور پسند و ناپسند کو مکمل طور پر تبدیل کر کے ان پر قابو پانے کی بہترین مثال صحابہ کرام کی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی جو پورے عرب میں شرک کا مرکز تھا۔ اللہ کا گھر سیکڑوں بتوں پر مشتمل ایک مندر بنا ہوا تھا اور یہ بت لوگوں کی تمام تر عقیدت ومحبت کا سرچشمہ تھے۔ صدیوں اور قرنوں سے جنگ و جدل کی وراثت پانے کے بعد یہ قوم ایک جھگڑالو قوم تھی جسے لڑنے کے لیے کوئی نہ ملتا تو اپنے ہی بھائیوں بندوں سے نبرد آزما ہوجاتی تھی۔ ماحول اور وراثت کے اس مجموعے کو شاعری اور خطابت کی تعلیم اور تربیت نے ان لوگوں کا فخر بنا دیا تھا۔ دور قدیم میں شرک تو سب کیا کرتے تھے، لیکن یہ لوگ فخر سے شرک کو اپنا دین کہتے تھے۔ جنگ و جدل دنیا کی ہر قوم میں ہوتا تھا، مگر یہ وہ قوم تھی کہ جنگ جس کی معیشت اور معاشرت بن چکی تھی۔
ایسے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ فطرت ہستی نے توحید کی صدا بلند کی۔ عقل اور فطرت کی ہر دلیل دے کر لوگوں کو سمجھایا کہ تنہا ایک ہی رب عبادت کے قابل ہے اور ایک روز اس کے حضور پیش ہوکر سب کو اپنے عمل کا جواب دینا ہے۔ نور نبوت کے آفتاب ہدایت کی روشنی کو جس جس نے قبول کیا، اس کی زندگی بدلتی چلی گئی۔ زندگی ہی نہیں شخصیت اور نفسیات تک بدل گئی۔
جو بتوں کے غلام تھے نشہ توحید سے سرشار ہوگئے۔ جو شرابوں کے رسیا تھے وہ گرم ترین موسم میں پانی کو ترک کرنے والے روزہ دار بن گئے۔ جنگ و جدل، لوٹ مار اور نسوانی حسن جن کی شاعری کا موضوع تھا ان کے درمیان سے ایک عورت سونا اچھالتی پورا عرب طے کر کے گزر جاتی تھی مگر کوئی اسے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔
شدید غصے کے مالک اور سگی بہن پر ہاتھ اٹھانے والے عمر دنیا کے بادشاہ بن گئے مگر حال یہ تھا کہ ایک عورت سربازار انہیں نصیحت کرتی اور وہ سر جھکا کر سنتے۔ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سے دشمنوں کی صفیں چیرنے والے ابو دجانہ کو خود پر اتنا قابو تھا کہ جب ایک عورت سامنے آئی تو تلوار اس کے سر پر پہنچ کر رک گئی۔ صحابہ کرام بلاشبہ دنیا میں اس ماڈل کی سب سے بڑی مثال ہیں کہ کس طرح عقل اور ارادہ انسان کی نفسیات اور شخصیت بدل کر اسے کچھ سے کچھ بنا سکتا ہے۔ چاہے اس کی وراثت، تربیت اور ماحول کا سبق جو بھی ہو۔