سلیقہ ۔ ڈاکٹر اشفاق
گھر کے بالکل سامنے ایک تاریخی سکول ہے جسے ریاستی دور میں والی ئسوات نے آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک تنظیم ”پریزینٹیشن سسٹرز“ کی مدد سے بنوایا تھا۔ میرے والد ائیر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد یہاں اس سکول کے انتظامی امور سے وابستہ رہے۔
آجکل یہاں سری لنکنز ہیں۔ جب تک والد صاحب اور آئرش یہاں تھے تو میرا اکثر سکول جانا ہوتا تھا۔ جونہی آپ سکول میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو یوں محسوس ہونے لگتا ہے گویا آپ یورپ کی کسی کاؤنٹی میں موجود ایک وسیع اور سرسبز و شاداب درس گاہ میں داخل ہوگئے ہوں۔
یہ انگریز بڑے عجیب لوگ ہیں۔ کافی عرصہ جب اِن کے قریب رہا تو بہت سی باتیں جاننے کو ملیں۔ یہ لوگ کوئی بھی کام کرتے تو دو چیزوں کو بڑی اہمیت دیتے۔ سلیقہ اور لگن۔ ان کے کام میں ایسی نفاست ہوتی ہے کہ انسان حیران رہ جائے۔ یہاں پرنسپل سے لے کر نیچے کے عہدوں پر کام کرنے والی آئرش خواتین کو ”سسٹرز“ پکارا جاتا۔ ایک مرتبہ میں نے پرنسپل کو میڈم کہہ دیا تو اپنی عینک کو ناک کے آخری سرے تک سَرکا کر مجھے گھورا اور کہا کہ سسٹر کہنے میں کوئی مسئلہ ہے؟ بعد میں والد صاحب سے پتہ چلا کہ سسٹر کے علاوہ کسی بھی اور نام سے پکارنا اُن کو ناگوار گزرتا ہے۔ سکول میں کوئی سا بھی کام ہو رہا ہو یہ ساتھ کھڑے کسی نہ کسی کام میں آپ کے ساتھ یوں مصروف رہتے کہ آپ کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ صرف آپ ہی کام کر رہے ہیں۔
ایک مرتبہ سکول کی ایک دیوار بنانی تھی۔ مقامی معمار کی خدمات لی گئیں۔ ایک سسٹر آئی اور دیکھ کر سمجھ گئی کہ معمار صاحب بیمار ہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ سر میں درد ہے۔ فوراً اندر گئی۔ ایک پلیٹ میں پیناڈول کی گولیاں اور ساتھ میں پانی کا گلاس لے آئی۔ اُن کو پیناڈول کے اثرات پر مختصر سا لیکچر دیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ آدھے گھنٹے میں اپنا اثر شروع کرے گی۔ لہٰذا آدھا گھنٹہ جمع اضافی آدھا گھنٹہ کام کی سخت ممانعت ہے۔ پھر اندر گئی اور وہاں سے کرسی بھی لے آئی۔ معمار صاحب حیران و پریشان۔ شاید یہ سوچ رہے تھے کہ اتنا اہتمام تو کبھی بیگم کے ہاتھوں نصیب نہ ہوا۔
سکول کے قریب ہی گاؤں کی ندی بہتی ہے۔ ایک مرتبہ بدقسمتی سے سکول کا ایک لڑکا اُس میں نہاتے ڈوب گیا۔ میں نے کئی دنوں تک ان سسٹرز کو بلک بلک کر روتے اور ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے دیکھا۔ بڑی سسٹر تو اِس قدر رنجیدہ ہوگئی تھیں کہ والد صاحب کو اُنہیں گھر لانا پڑا۔ ایک دن والد صاحب سے اُن کی تنخواہوں کا پوچھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ اپنی تنخواہ وہ لوگ خود ایک مخصوص ضابطے سے مقرر کرتے تھے اور سکول کے بقیہ آدھے مقامی سٹاف سے اُن کی تنخواہیں کم تھیں۔
اُن کا پیپر ورک بہت شاندار ہوا کرتا تھا۔ بہت سلیقے سے ایک ایک چیز کی تفصیل طے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ میں فارغ تھا تو اُن کا ہاتھ بٹانے کے لیے وہاں چلا گیا۔ مجھے کچھ کاغذ دیے۔ ہم سب قالین پر بیٹھے اور وہ پہلے جزیات طے کرنے لگیں۔ میں پاکستانی عجلت پسند کی طرح بول اُٹھا کہ سسٹر کام سادہ سا ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہ ہے، ہم ابھی نمٹائے دیتے ہیں تو سب ہنس پڑیں۔ بڑی سسٹر نے اُس وقت جو بات کہی وہ بنا لکھے میرے من پر ثبت ہوگئی، کہا کہ ”اشفاق کام کو کرنا نہیں ہے، کام کو خوبصورت بنانا ہے۔“ سوچتا ہوں ہم ایسے سلیقے سے کوسوں دور ہیں۔ سلیقہ سیکھ جائیں تو زندگی آسان ہو جائے گی۔
ایک اور بات، سسٹرز کو اکثر کوئی بات کرنا ہوتی تو خود ہی پاس آتیں۔ کوئی ایسی بات بھی جو وہ دور سے آواز کی والیوم کو تھوڑا اُونچا کرکے بھی کہہ سکتی تھیں، لیکن وہ کام کے دوران محض اِس بات سے بچنے کی خاطر کہ والیوم اُونچا نہ ہو، پاس آنا لازم سمجھتی تھیں۔ اِس کا بھی پوچھا تھا ایک دن تو بتایا کہ کام کے دوران سکون کا ماحول برقرار رکھنا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کام۔
سلیقہ کیا ہی خوبصورت ادا ہے۔ کیوں نہ ہم اپنے اندر قدرت کی ودیعت کردہ کوئی سی صلاحیت کو جان جائیں تو ساتھ ہی اُسے بروئے کار لانے کے لیے ”سلیقہ“ بھی سیکھ جائیں۔