صادق و امین کا ماڈل ۔ ابویحییٰ
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں کسی شخص کی دینداری کے بیان کے لیے صوم و صلوٰۃ کا پابند ہونے کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فلاں مرد و عورت اتنا نیک ہے کہ نماز اور روزے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ معاشرے میں کام کرنے والے دینی افراد کی فکر کا غلبہ ہونا شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں دینداری کی تعریف مزید ترقی کرتی گئی۔ اب دینداری کی سند حاصل کرنے کے لیے صرف صوم و صلوٰۃ کی پابندی کافی نہیں بلکہ دیندار معاشرے میں وہ شخص کہلانے لگا جو شرعی حلیہ اختیار کرے۔ اس میں ایک مشت سے بڑی داڑھی، اونچی شلوار، سر پر ٹوپی اور خواتین کے لیے برقعے و پردے کا اہتمام نیز تصویر اور موسیقی سے مکمل پرہیز شامل ہے۔
ہمارے معاشرے میں پچھلی کئی دہائیوں میں دینداری کی اس تعریف میں نہ صرف مذکورہ بالا چیزیں، جن کا اہتمام مشکل ہے، شامل ہوئی ہیں بلکہ ان کا اہتمام کرنے والے لوگ بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام الناس ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے ان طبقات میں بھی اس دینداری کو غیرمعمولی فروغ حاصل ہوا ہے جہاں کبھی بھی دینداری اور تقویٰ کی رسائی آسان نہیں تھی۔ ہمارا اشارہ نوجوان لڑکے لڑکیوں اور صاحب ثروت افراد کی طرف ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں نوجوان لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اپنی مرضی اور شوق سے پردے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اسی طرح نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد سر پر ٹوپی اور عمامے کا تاج سجائے اور چہرے کو داڑھی کے نور سے مزین کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو ان چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کے دولتمند طبقات میں بھی اس دینداری کے اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑے بڑے تاجر اور ان کی بیگمات دینی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور ان کی اعانت کرتے ہیں۔ معاشرے کے جو طبقات اور لوگ ان چیزوں کا اہتمام نہیں بھی کرتے ان کے نزدیک بھی یہ تو مسلم ہے کہ دینداری اگر کچھ ہوتی ہے تو یہی ہوتی ہے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف رشوت، بدعنوانی، ملاوٹ، جھوٹ، وعدہ خلافی، حسد، تکبر، بددیانتی، فرائض سے غفلت، منافقت، ہوس زر، دنیا پرستی اور ان جیسی دیگر برائیوں کا معاملہ ہے جو معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ عام لوگ نہ صرف بڑی تعداد میں ان برائیوں کا شکار ہیں بلکہ مذکورہ بالا دیندار لوگ بھی اکثر ان عیوب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ موسیقی کے بارے میں بڑے محتاط لوگ دولت کی جھنکار کے پیچھے ہر اخلاقی حد کو عبور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تصویر کے معاملے میں حساس لوگوں کی اخلاقی تصویر اتنی بھیانک ہے کہ دنیا کے ہر آئینے کو سیاہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ داڑھی ٹوپی برقعے اور اونچی شلواروں والے لوگ بھی غیبت، جھوٹ، وعدہ خلافی، تکبر، حسداور ریاکاری کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔
ہمارے اس تجزیے کا مقصد یہ نہیں کہ ان کے نیکی کے معیارات ہی ان کے اخلاقی عیوب کی وجہ ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینداری کا معیار کچھ ظاہری چیزیں قرار پا گئی ہیں۔ لوگ انہی کے بارے میں حساس رہتے ہیں اور جن اخلاقی چیزوں کی حیثیت دین میں مقاصد کی ہے وہ نگا ہوں سے بالکل اوجھل ہو چکی ہیں۔
دوسری طرف جو ہستی دین کے معاملے میں ہمارے لیے رول ماڈل ہے اس کی نیکی کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ تھی کہ آپ ایمان و اخلاق کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز اور بہترین اخلاق کے حامل تھے (القلم4:68)۔ پچھلے صحیفوں میں آپ کی پیش گوئی آپ کی جن خصوصیات کے ساتھ کی گئی تھی ان میں آپ کی صفات اور سیرت کے حوالے سے سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ یہ شخص الصادق و الامین ہوگا(مکاشفہ11:19)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین مخالف بھی آپ کی اخلاقی حیثیت کے معترف تھے۔ لوگ آپ کے دشمن ہوگئے لیکن امانتیں آپ کے پاس رکھواتے۔ وہ آپ کے پیغام کو نہیں مانتے تھے مگر کہتے تھے کہ یہ صاحب جھوٹ نہیں بولتے۔ وہ آپ کو اللہ کا رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے مگر انہیں یقین تھا کہ آپ کی بارگاہ میں کوئی مقدمہ پیش ہوا تو آپ اس کا فیصلہ عین عدل پر کریں گے۔
آپ کی سیرت اگر آپ کی ذات کا بیان ہے تو قرآن آپ کی تعلیمات کا بیان ہے۔ یہ قرآن جب کبھی اپنے مطلوب کردار کا بیان کرتا ہے تو اس میں صرف اور صرف ایک اعلیٰ ترین اخلاق کے انسان کی تصویر ہی سامنے آتی ہے۔ نہ کہ وہ تصویر جو آج دین کے نام پر پیش کی جاتی ہے۔
اس پس منظر میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہم لوگوں کو حساس بنانا چاہتے ہیں تو انہیں ظاہری اعمال میں حساس بنانے سے پہلے اس قرآنی ماڈل کے معاملے کو حساس بنائیں جو حضور کی سیرت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ ماڈل الصادق و الامین کا ماڈل ہے۔ یہ ماڈل حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں یکساں طور پر ادا کرتا ہے۔ یہ ماڈل اگر نماز روزے کا پابند ہوگا تو بددیانتی اور ہوس زر سے بھی پاک ہوگا۔ یہ اگر عریانی اور فحاشی کو ناپسند کرے گا تو غیبت، رشوت، حسد، جھوٹ اور وعدہ خلافی سے بھی بھاگے گا۔ یہ ماڈل ہر حال میں پورا تولے گا۔ عدل کرے گا۔رب سے ڈرے گا اور بندوں پر رحم کرنے والا ہوگا۔
اگر سوسائٹی کو اچھا بنانا ہے، اگر معاشرے میں عدل و فلاح کو عام کرنا ہے، اگر جہنم کی آگ سے لوگوں کو بچانا ہے، اگر جنت کی وادی کو عباد الرحمن سے آباد کرنا ہے تو لوگوں کو الصادق و الامین بنائیے۔ لوگوں کو ان کے اخلاقی لباس کے بارے میں، ان کی اخلاقی تصویر کے بارے میں حساس بنائیے۔ انہیں بتائیے کہ متکبر جنت میں نہیں جاسکتا۔ مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ جس میں عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ حسد نیکیوں کو اس طرح جلاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔ ہوس زر اور دنیا پرستی میں مبتلا درہم و دینار کے بندے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ غیبت زنا سے بدتر جرم ہے۔ بہتان انسان کی عمر بھر کی کمائی کو ختم کر دیتا ہے۔ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
اللہ کے بندوں پر انفاق کرنے والا، پڑ وسیوں سے اچھا معاملہ کرنے والا، غریبوں یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنے والا، والدین اور رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے والا مخلوق خدا پر ر حم کرنے والا الصادق و الامین ماڈل ہی آج سب سے بڑھ کر ہماری ضرورت ہے۔ یہی وہ ماڈل ہے جو ہم دینداروں کا مطلوب ہونا چاہیے۔