صدائے زندگی ۔ ابویحییٰ
پاکستانی معاشرے کے المیے کو اگر اختصار سے بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ اس قوم کی لیڈر شپ اور اشرافیہ کا ایک بڑا حصہ انتہائی مفاد پرست یا انتہائی بے بصیرت لوگوں پر مشتمل ہے۔ آج ہم جس حال میں ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی مجھ سے اس قوم کی خوشی نصیبی جاننا چاہے تو وہ یہ ہے کہ اس کی مڈل کلاس کا ایک بڑا حصہ بہت مخلص اور درمند لوگوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر مظہر اعوان کی زندگی اور ان کی کتاب ’’صدائے زندگی‘‘ اس دوسری بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے میری نیاز مندی کا عرصہ ایک عشرے پر محیط ہے اور اس عرصہ میں انھیں میں نے شب و روز آنکھوں کے اس ہسپتال کے لیے جدوجہد کرتا ہوا پایا ہے جس کا مقصد معیاری علاج کو عام آدمی کی دسترس میں لانا ہے۔ بلاشبہ اس کام میں بہت سے اہل خیر نے ان کے ساتھ غیر معمولی تعاون کیا اور جدید ترین سہولیات سے آراستہ آنکھوں کے ہسپتال کے قیام کے لیے تمام ممکنہ وسائل فراہم کیے ہیں۔ تاہم اس منصوبے کے اصل ٹیم لیڈر وہی رہے۔ اب ان کی کتاب صدائے زندگی اس بات کا ایک دستاویزی ثبوت بن کر دنیا کے سامنے موجود ہے کہ دیانت کا بیج چاہے غربت کی زمین پر بویا جائے، مگر جب محنت اور یکسوئی کے پانی سے اسے سینچا جاتا ہے تو وہ سایہ دار درخت وجود میں آتا ہے جس سے دنیا فیض حاصل کرتی ہے۔
کتاب ڈاکٹر صاحب کے حالات زندگی پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کے ان بہت سے ذاتی احباب کے احوال کا بھی احاطہ کرتی ہے جو انھی کی طرح دیانت اور خدمت پر یقین رکھتے ہوئے معاشرے کو بہت کچھ دے رہے ہیں۔ ان میں سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس مشیرعالم جیسے معروف لوگ بھی شامل ہیں، مگر زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو خاموشی سے معاشرے کو دیتے رہتے ہیں اور اپنا اجر اللہ سے پانے کے یقین کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ان لوگوں کے احوال پڑھ کر مجھے بے اختیار بابائے اردو مولوی فضل الحق یاد آئے جنھوں نے عام لوگوں کی آپ بیتی لکھنے کی طرز ڈال کر معاشرے کو اس تصور سے روشناس کرایا تھا کہ معاشرے کی اصل طاقت بادشاہ اور نامور لوگ نہیں ہوتے بلکہ وہ عام لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سیرت و کردار سے معاشرے کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔
آپ بیتی کے ساتھ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے ان مضامین پر بھی مشتمل ہے جو وہ مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔ یہ متنوع موضوعات پر مشتمل مضامین ہیں جو کئی پہلوؤں سے بڑے دلچسپ ہیں۔ مثلاً ایک مضمون اسلام آباد کے اس سفر کی روداد پر مشتمل ہے جو جہاز کے کاک پٹ میں بیٹھ کر کیا گیا۔ ایک مضمون بچوں کے ختم قرآن کے حوالے سے قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی اہمیت پر ہے۔ اسی طرح دلچسپ انداز میں کئی چیزیں لکھی گئی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب علامہ اقبال کی اس دعا پر ختم ہورہی ہے جو ہماری عمر کے تمام بچے اسکول میں پڑھتے رہے ہیں:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہوخدایا میری
یہ شاید اقبال کی اس نظم ہی کا فیض ہے کہ ڈاکٹر مظہر صاحب اور ان کی نسل کے لوگوں میں اپنے وجود کو جلا کر بھی معاشرے کو روشنی دینے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رجحان کو زندہ رکھا جائے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کر دے۔ اس بات سے بے نیاز کہ تاریک اندھیروں کے مقابلے میں ایک شمع کیا کرسکتی ہے۔ جب سب لوگ اپنی اپنی شمع جلائیں گے تو ہر اندھیرا دور ہوجائے گا۔