رومانویت اور مزاح پر اعتراض ۔ ابویحییٰ
بعض قارئین کی طرف سے ناول "جب زندگی شروع ہوگی” میں بیان کیے جانے والے مزاح اور رومانویت کے بعض لطیف پہلوؤں پر اعتراض کیا گیا ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں ان پہلوؤں پر کلی طور پر تو شاید کسی کو بھی اعتراض نہ ہو، اس لیے کہ یہ انسانی زندگی کے ایسے پہلو ہیں جن پر عقلاً اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ یہ انسانی وجود کی ناگزیر لطافتیں ہیں جنھیں ہٹانے کے بعد انسان انسان نہیں رہتا۔ یہ لطافتیں اس دنیا میں بھی ناگزیر طور پر پائی جاتی ہیں اور جنت میں تو بدرجہ اولیٰ ہوں گی۔ شاید اصل اعتراض کا سبب یہ ہے کہ یہ لطیف چیزیں ناول کے مرکزی کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں۔
اس حوالے سے دو تین گزارشات پیش ہیں۔ پہلی یہ کہ میری اصل ترجیح یہ تھی کہ ناول کے صفحات کم سے کم رکھے جائیں تاکہ کتاب بیزاری کے اس دور میں لوگ کسی ضخیم کتاب کو دیکھ کر ہی نہ چھوڑ دیں۔ اس لیے کردار کم سے کم رکھے گئے ہیں۔ اس بنا پر مزاح، رومانویت یا اسی نوعیت کی دیگر لطیف چیزیں اگر بیان ہوئی ہیں تو انہی مرکزی کرداروں کے ذریعے سے بیان ہوئی ہیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ یا تو جنت سے ان لطیف احساسات کو نکالا جاتا یا پھر مزید کردار تخلیق کیے جاتے۔ پہلی صورت میں جنت ایک کثیف مقام بن جاتی اور دوسری صورت میں میں ناول ایک ضخیم کتاب بن جاتا۔
رہی یہ بات کہ کیا کسی اعلیٰ سطح کے انسان میں جو اللہ کی قربت کے اعلیٰ مقام پر ہو اس نوعیت کے کسی لطیف جذبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ یہ ہمارا تصور تو ہوسکتا ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مجھے اس حوالے سے ذاتی زندگی میں بڑے دلچسپ تجربات پیش آئے ہیں۔ میں ایک بہت معمولی سا طالب علم ہوں جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ صرف بات سمجھانے کے لیے یہ مثال پیش کر رہا ہوں۔ میرے ایک عزیز رفیق اور اسٹوڈنٹ نے ایک دفعہ مجھے بازار سے سبزی خریدتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ آپ کو یہ کرتے ہوئے دیکھ کر بہت عجیب لگتا ہے۔ ایک اور صاحب نے ایک دفعہ دوران گفتگو بعض بڑے اہل علم کا نام لے کر مجھ سے یہ کہا کہ یقین نہیں آتا کہ ان لوگوں کو بھی رفع حاجت کے لیے بیت الخلا جانا پڑتا ہوگا یا یہ لوگ بھی اولاد اسی طرح حاصل کرتے ہوں جس طرح دوسرے انسان کیا کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ ہمارا تصور تو ہوسکتا ہے، مگر حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اس حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ہونے والی چیز جنت کا وہ مسیحی تصور ہے جو پیچھے بیان ہوا ہے۔ یعنی جنت سر تا سر ایک روحانی مقام ہے جہاں کسی مادی، جبلی اور لطیف انسانی جذبے کی شاید گنجائش نہیں۔ وہاں تو بس ہر طرف اللہ ھو کا ورد ہوگا اور بس۔ ظاہر ہے اس بات کا کم از کم دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ دین اسلام تو آیا ہی اس لیے ہے کہ اس نوعیت کی غلط فہمیاں دور کرے۔ اسی مقصد کے لیے میں نے جنت کے ذکر میں ایک بازار کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ ایسی چیزوں کا تذکرہ احادیث میں بھی آیا ہے اور ان سے یہی بتانا مقصود ہے کہ وہاں کی زندگی ایک بہت اعلی زندگی ہوگی، لیکن ان انسانی دلچسپیوں سے کلی طور پر خالی نہیں ہوگی جو آج ہمیں اس دنیا میں نظر آتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں جانے کے بعد انسان کے منفی جذبات تو اس کے وجود سے دھو کر الگ کر دیے جائیں گے، مگر انسان کی فطرت اور طبیعت نہیں بدلے گی۔ انسان فرشتہ نہیں بن جائے گا بلکہ ان کی انسانیت پوری طرح باقی رہے گی۔