اسلام کی روحانیت کی حقیقت ۔ ابویحییٰ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر عظمت کے ان گنت تاج ہیں۔ ان میں سے ایک اس حقیقت سے دنیا کو روشناس کرانا ہے کہ روحانیت دراصل کس چیز کا نام ہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل روحانیت ترک دنیا کا نام تھا۔ یہ بیوی بچوں، گھربار، مال ودولت اور تمام علائق دنیا کو چھوڑ کر کسی جنگل ویرانے میں جا بیٹھنے اور اللہ اللہ کرنے کا نام تھا۔ ہندو، بدھ، مسیح اور یہود سب ہی کے نزدیک یہی روحانیت اور مذہب کا کمال تھا۔
ایسے میں عارف اعظم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے عورت کی اُس ہستی کو جسے دنیا کا سب سے بڑا فتنہ سمجھا جاتا ہے، اسے محبوب ترین متاع قرار دیا، (صحیح الجامع، رقم 3124)۔ اس سے بڑھ کر تعلق زوجین کے حوالے سے دعا سکھا کر آپ نے شہوت اور حیوانیت کو روحانیت کا جو قالب عطا کیا وہ کسی غیر مذہبی انسان کے لیے ناقابل تصور ہے۔
اس کے برعکس رہبانیت کو دین اسلام میں بدعت قرار دیا گیا اور بدعت کو مذہبی اعتبار سے بدترین چیز قرار دیا گیا۔ رہبانیت اور بدعت دونوں آخری درجے کے مذہبی اعمال ہیں جن میں دنیا کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ مگر چونکہ یہ اللہ کی مرضی کے خلاف ہیں اس لیے روحانیت کے قالب میں ایک ضلالت ہیں۔ یہی وہ اصل فرق ہے جسے آپ نے اپنی تعلیمات میں واضح کر دیا۔
جب کوئی عمل اللہ کی مرضی کے مطابق کیا جاتا ہے تو وہ عین روحانیت ہے چاہے بظاہر دیکھنے میں وہ حیوانیت نظر آرہا ہو۔ مگر جب اللہ کی مرضی اور پسند سے آگے بڑھ کر اپنی مرضی سے کچھ کیا جائے تو چاہے وہ عمل عین عبادت ہو، اللہ کی بارگارہ میں ضلالت قرار پاتا ہے۔
یہی اسلام کا حقیقی تصور روحانیت ہے۔ یہ تصورِ روحانیت اللہ کی مرضی کے رنگ میں رنگ جانے کا نام ہے۔ اس کی اصل اپنی خواہش اور مرضی کو فنا کر کے خدا کی رضا کو زندگی بنانا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر حیوانیت سے بھی روحانیت پھوٹتی ہے اور ایسا نہیں تو عبادت بھی ضلالت قرار پاتی ہے۔