رمضان کے بعد ۔ ابویحییٰ
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ، رمضان، آخرکار گزر گیا۔ مگر اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گیا کہ ہمیں اس کی رحمتوں و برکتوں سے کتنا فیض حاصل ہوا؟ لوگ اس سوال کا جواب رمضان میں کی گئی اپنی عبادتوں، ریاضتوں، شب بیداریوں اور دعاؤں میں تلاش کرتے ہیں۔ مگر اس سوال کا حقیقی اور زندہ جواب رمضان کے بعد کے ایام میں سامنے آجاتا ہے۔
لوگوں کی غالب ترین اکثریت عید کے چاند کی اطلاع کے ساتھ ہی رمضان کو فراموش کر دیتی ہے۔ ان کے لیے عید کے ایام خوشی کے نہیں غفلت کے ایام بن جاتے ہیں۔ جن میں نمازوں کی پابندی ختم، قرآن مجید کی تلاوت سے فراغت اور یاد الہی، ذکر و دعا سے صبح و شام خالی ہو جاتے ہیں۔
نفلی عبادات میں رمضان کے بعد کمی اتنا بڑا سانحہ نہیں کہ فطری طور پر انسان رمضان میں ان کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہوتا ہے اور رمضان کے بعد ان میں کمی متوقع ہوتی ہے، مگر ان سے بالکل ہاتھ اٹھا لینا، گناہوں پر دلیر ہوجانا اور فرائض کا ترک کر دینا اس بات کی علامت ہے کہ رمضان میں نظر آنے والی نیکی ایک نوعیت کا موسمی بخار یا مذہبی فیشن کی ایک شکل تھی۔ یہ کسی حقیقی معرفت، احساس اور ایمان کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ حدیث کے الفاظ میں ایسے روزے ایمان و احتساب کے بغیر رکھے گئے اور ایسی شب بیداری ایمان و احتساب کے بغیر کی گئی۔ چنانچہ یہ روزے اور شب بیداری انسان میں حقیقی تبدیلی نہ لاسکے۔ یہ موسمی بخار تھا جو اتر گیا۔ مذہبی فیشن تھا جو وقت کے ساتھ رخصت ہوگیا۔ اگر ایمان ہوتا اور احتساب ہوتا تو کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آتی۔ کچھ نئے اہداف طے ہوتے۔ کچھ کمزوریاں رخصت ہوتیں۔ زندگی میں بہتری ضرور آجاتی۔ سو اگر رمضان میں بھی ہم نے اپنا احتساب نہیں کیا تو رمضان کے بعد ہی سہی، ایمان کے تھرمامیٹر سے اپنا درجہ حرارت ضرورت دیکھیے۔ یہ موسمی بخار تھا تو اتر گیا ہوگا۔ ورنہ ایمانی حرارت نے عمل میں ضرور بہتری پیدا کی ہوگی۔