رب راضی تو سب راضی ۔ شمائلہ عثمان
بابا حیدر بہت زمانے کے بعد نظر آئے۔ وقت کی دھول نے اگرچہ ان کے کندھے جھُکا دیے تھے، لیکن آج بھی وہ کام کے متلاشی تھے۔ جب ان کا حال پوچھا تو ہمیشہ والا جواب، جو اب ان کا خاصہ تھا، کہ ’’رب راضی تو سب راضی‘‘۔ ہمیشہ کی طرح چہرے پر سکون تھا لیکن قریب قریب ستر سال کی عمر میں کام کی تلاش کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ اس عمر میں بھی ذمہ داریاں ختم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ جوان بیٹا شہر کے حالات کی نظر ہوگیا اور دوسرا بیٹا نشہ کی لت کا شکار ہوگیا اور اب ان دونوں کے بیوی بچوں کی ذمہ داری اس کے ناتواں کاندھوں پر تھی۔ وہ کسی مالی مدد کے بجائے کام کر کے زرق حلال سے بچوں کو پالنا چاہتا تھا اور اللہ کی ہر رضا میں راضی تھا۔
ہمارے آس پاس ایسے بے شمار لوگ نظر آئیں گے، جنھیں یہ پتہ نہیں کہ آج مزدوری ملے گی یا نہیں، وہ رات کو بچوں کا پیٹ بھر بھی پائیں گے یا نہیں لیکن دل میں رب کو راضی رکھنے کی ایک تڑپ ہمہ وقت موجود ہے۔ یہی دنیاوی مسائل میں گھرا ہوا مخصوص طبقہ ہے جو ہر دور میں رہا ہے اور اپنے حصے کی تمام پریشانیوں کے پہاڑ اس دنیا ہی میں سر کر رہا ہے، بغیر اللہ سے شکوہ کیے۔ نبیوں پر ایمان اور اللہ کی پہچان سب سے پہلے ایسے ہی انسانوں نے کی ہے۔ محدود عقل، محدود وسائل، محدود نظر رکھنے والے شاید یہی وہ اللہ کے مقرب بندے ہیں جو روز جزا والے دن غم و الم سے دور عمدہ پوشاکوں میں اللہ رب العزت کے سایہ رحمت میں ہوں گے۔