قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت و اہمیت اور فضیلت ۔ ابو ابراہیم
اللہ تعالی نے انسان پر بے شمار انعامات فرمائے ہیں اور خود اس کا اظہار فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان (کی گنتی) کا احاطہ نہیں کرسکتے (ابرہیم:34) انہی نعمتوں میں سے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اللہ تعالیٰ کا کلام ہے یعنی قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے عنایت فرمائی لیکن افسوس اس بات کا ہے آج انسان نے خصوصاً ہم مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کا رویہ اپنا رکھا ہے۔ جو نعمت جس قدر عظیم ہوتی ہے اس کے شکر کے تقاضے بھی اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں اگر اس کی ناقدری کی جائے تو پھر اس کی سزا بھی اسی قدر بڑی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے ’’اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں ضرور بالضرور تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر میری ناشکری کرو گے تو پھر (یاد رکھو) میرا عذاب بھی بہت سخت ہے (ابراہیم:7 )۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہیں ۔ہمیں اپنی ذلت و رسوائی کے اسباب کا بھی بخوبی علم ہے لیکن ہم ان اسباب کو دور کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مطلع فرما دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن کی اتباع) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلندیاں عطا فرمائیں گے اور بہت سے لوگوں کو (اس سے اعراض کی وجہ سے) پست و ذلیل فرمائیں گے (مسلم)۔
قرآن مجید کو پڑھنا سمجھنا اس کی تعلیمات پر خود عمل کرنا اور اس کی تعلیمات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر کوئی بھی انسان نہ دنیا میں صحیح معنوں میں کامیاب زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ہی آخرت کی زندگی میں نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ہر انسان اور خصوصاً ہر مسلمان کے لئے واجب ہے۔ پھر فہم قرآن کی بھی دو صورتیں ہیں ایک عام اور ایک خاص یا ایک آسان اور دوسری مشکل۔
پہلی صورت یہ ہے کہ انسان قرآن کا ایسا فہم حاصل کرے کہ قرآن مجید میں جو عقائد اور ترغیب وترھیب (یعنی گزشتہ اقوام کے واقعات، ان کی سرکشیاں، ان کا انجام وغیرہ) سے متعلق باتیں ہیں اور جو اوامر و نواہی ہیں اور جن اخلاق حسنہ کی تعریف کی گئی ہے اور جن اخلاق سیئہ کی مذمت کی گئی ہے اور دوسرے لوگوں کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں انسان ان کو سمجھ کر ان کو اپنا سکے۔ قرآن اس حوالے سے بالکل آسان ہے خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ القمر میں چار بار فرمایا ہے کہ ہم نے نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن کو آسان کر دیا ہے اور آگے قرآن میں غورو فکر کرنے پر ابھارنے کے لئے بہت پیارے انداز میں سوال فرمایا: پس ہے کوئی سوچنے والا نصیحت حاصل کرنے والا۔ اور ہمارا مقصود بھی یہی ہے کہ ہر مسلمان پر کم ازکم قرآن کا اتنا فہم حاصل کرنا واجب ہے ۔دوسری صورت فہم قرآن کی یہ ہے کہ انسان قرآن کے علوم و معارف، فصاحت و بلاغت کی گہرائی و باریکی میں مہارت حاصل کرے اور اس قابل ہو جائے کہ قرآن کریم سے مسائل کا استنباط کر سکے اور قرآنی مسائل پر کلام کرسکے تو یہ مقام ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ہر مسلمان سے یہ مطلوب ہے بلکہ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اس سے ہدایت ونصیحت اور عبرت حاصل کرے۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت و اہمیت اور فضیلت پر ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں چند سطور پیش خدمت ہیں تاکہ ہمیں اس موضوع کی اہمیت کا علم ہو سکے۔
قرآن آسان ہے’’کی وضاحت‘‘
ولقد یسرنا القراٰن للذکر فھل من مدکر القمر:17، 22، 32، 40
اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟
ذکر کا لفظ یاد کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے معنوں میں آتا ہے اس جگہ دونوں معنی مراد لیے جا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کے الفاظ کو ایسا سہل بنا دیا کہ پانچ چھ سال کا بچہ بھی اسے مکمل حفظ کر لیتا ہے اور عبرت و نصیحت کے اعتبار سے بھی ایسا سہل اور عام فہم بنا دیا کہ ہر ایک عامی و جاہل اور عالم و فاضل اس میں بیان کردہ واقعات و امثال سے عبرت حاصل کرسکتا ہے اور قرآن کا ایک بنیادی مقصد بھی یہی ہے باقی رہا قرآن سے مسائل کا استنباط تو وہ دین کا گہرا علم رکھنے والے اہل علم کا کام ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیری ؒ قرآن کے سہل ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’قرآن کے سہل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآنی معارف و گہرائیوں تک ہر ایک کی رسائی ممکن ہے بلکہ حق تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا جو طریقہ قرآن میں پیش کیا گیا ہے اس کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ میری سمجھ میں نہیں آیا اس بارے میں قرآن کا طریقہ خطاب اتنا واضح، صاف، شستہ اور روشن ہے کہ کوئی سمجھنا ہی نہ چاہے تو دوسری بات ہے ورنہ قرآن اپنی حجت پوری کرچکا ہے‘‘۔
(احاطہ دارلعلوم میں بیتے ہوئے دن از مولانامناظراحسن گیلانی ؒ، ص114)
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ قرآن کی تدریس کے لئے مدرسہ کے دس سالہ نصاب کے ضروری ہونے کے بارے میں کچھ علماء کی رائے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان فرماتے ہیں: ’’میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کو نہ کسی بنیاد کی ضرورت ہے نہ بیساکھیوں کی، قرآن مجید بنیاد بھی فراہم کرتا ہے، دیواریں بھی فراہم کرتا ہے، اور تعلیم کی تکمیل بھی کر دیتا ہے۔
قرآن مجید خود اپنی جگہ ایک مکمل کتاب ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ باقی علوم قرآن مجید کے محتاج ہیں۔ اس لیے مجھے اس دلیل سے اتفاق نہیں ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ آپ سے کہیں کہ آپ نے فقہ اور اصول فقہ کا علم حاصل نہیں کیا، یا آپ نے علم الکلام نہیں پڑھا، اس لئے آپ کو درس قرآن کی ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہیے۔ مجھ ناچیز کا مشورہ یہی ہے کہ آپ اس وسوسہ میں نہ پڑیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔ میں خود فقہ کا طالب علم ہوں، فقہی موضوعات پر ہی پڑھتا پڑھاتا ہوں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قرآن فہمی فقہ کی محتاج نہیں، یہ تمام علوم قرآن پاک کے محتاج ہیں قرآن ان میں سے کسی کا محتاج نہیں۔ اس لئے آپ کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام جاری رکھیں‘‘۔
(محاضرات قرآنی، ص:43)