قرآن اور مسلمان ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کے مطابق رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ قرآن مجید کی ہدایت کے ان گنت پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو وہ ہے جو اس کی حسنِ ترتیب سے ہمارے سامنے آتا ہے۔
قرآن مجید کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ یہ جس ترتیب کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس سے ایک مختلف ترتیب کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ ترتیب توقیفی ترتیب کہلاتی ہے۔ اس ترتیب کے متعلق ایک رائے یہ ہے کہ یہ بڑی سورتوں سے بتدریج چھوٹی سورتوں کی طرف قائم کردہ ترتیب ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ اس مشاہدے کی تردید قرآن مجید کی پہلی سورت سورۂ فاتحہ کر دیتی ہے جو ایک انتہائی چھوٹی سورت ہے۔ بڑی سورتیں اس کے بعد آتی ہیں۔ ان بڑی سورتوں میں سے بھی بقرہ ﴿۲۸٦﴾، آل عمران ﴿۲۰۰﴾، نساء ﴿١۷٦﴾ اور مائدہ ﴿١۲۰﴾ میں آیات تدریجاً کم ہوتی ہیں، مگر اگلی چار سورتوں یعنی انعام ﴿١٦۵﴾، اعراف ﴿۲۰٦﴾، انفال ﴿۷۵﴾ اور توبہ ﴿١۲۹﴾ میں ایسی کوئی ترتیب نہیں پائی جاتی۔
ہمارے نزدیک اس ترتیب میں جو چیز ملحوظ رکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نازل تو مشرکین کے درمیان ہوا تھا، مگر تاقیامت اسے مؤمنین کے درمیان رہنا تھا، ایسے لوگوں کے درمیان جو اسلام کے دعویدار اور ایمان کے مدعی ہوں گے، مگر ان میں وہ ساری کمزوریاں، برائیاں اور عیب در آئیں گے جو سابقہ امتوں میں آموجود ہوئے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ابتدا میں وہ سورتیں آتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پانے کے بعد اقوام کس طرح گمراہ ہو جایا کرتی ہیں۔ ان سورتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک فکر و عمل اور فلسفہ و شریعت کی سطح پر کیا چیز ہدایت ہے۔ وہ کیا رویہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور وہ کیا طریقہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ سابقہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کس طرح ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہوگئے۔ ان میں کس طرح شرک و بدعت کے رویے عام ہوئے۔ کس طرح ایمان و اخلاق کے بجائے ظاہر پرستی عین مطلوب بن گئی۔ کس طرح عملِ صالح کے بجائے فسق و فجور کے رویے عام ہوئے۔ کس طرح حق پرستی کے بجائے قوم پرستی امتوں کے فکر و عمل کا محور و مرکز بن گئی۔
پھر ان سورتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح منافقت کا روگ ایمانی وجود میں کینسر کی طرح سرایت کرجاتا ہے۔ کس طرح لوگ خود کو اصلاح کرنے والا سمجھتے ہیں حالانکہ وہ سب سے بڑے فسادی بن جاتے ہیں۔ کس طرح منافقت معاشروں میں عام ہوجاتی ہے۔ کس طرح اقوام ﷲ تعالیٰ کی نعمت اور انعام پانے کے بعد گمراہی کا رویہ اختیار کرتی ہیں۔ کس طرح اسلاف کے نام پر قوموں میں غلط روی عام ہوجاتی ہے۔ لوگ نام ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل علیھما السلام کا لیتے ہیں، مگر خود ساختہ رسموں اور ضابطوں پر مشتمل ایک نیا دین گھڑ لیتے ہیں۔ نام موسیٰ اور عیسیٰ علیھما السلام کا لیا جاتا ہے، مگر درحقیت قوم پرستی اور شرک و بدعت کا ایک جھنکاڑ ہوتا ہے جس کو مذہب کے نام پر پیش کیا جاتا ہے۔
اس طرح قرآن مجید کی یہ ابتدائی سورتیں مسلمانوں کو یہ بتانے کے لیے ابتدا میں رکھی گئی ہیں کہ انھیں سابقہ امتوں کے طرز عمل سے بچنا ہوگا۔ وہ اگر نہیں بچیں گے تو ان کا انجام بھی ویسا ہی ہوگا جیسا انجام ان سورتوں میں پچھلی امتوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ وہ بظاہر اپنے آپ کو عین حق سمجھیں گے، مگر خدا کے نزدیک وہ مغضوب اور گمراہ ہوں گے۔ وہ خود کو جنت کا حقدار سمجھیں گے، مگر رب کے نزدیک ان کا اصل ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ وہ خود کو خیرالامم کہیں گے، مگر پروردگار ان پر ذلت، مسکنت اور رسوائی تھوپ دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے کہ وہ افراد کا معاملہ قیامت پر اٹھا رکھتا ہے، لیکن اقوام و ملل کو ان کے اعمال کے مطابق اسی دنیا میں بدلہ دیتا ہے۔
یہی وہ بات ہے جو قرآنِ مجید کی ابتدائی سورتوں کا بنیادی سبق ہے جو ہر اس مسلمان کو سیکھنا چاہیے جو سوچ سمجھ کر قرآن مجید کو رمضان میں پڑھنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔