Take a fresh look at your lifestyle.

قیامت کا دن اور یاجوج و ماجوج ۔ ابویحییٰ

السلام علیکم ۔ سر آپ نے انسان کی کہانی میں بتایا کہ یاجوج ماجوج دراصل یافث کی اولاد ہیں جو کہ آج یورپ اور ایشیا کے شمال مشرقی علاقے میں آباد ہیں۔ قیامت کے نزدیک ان کا خروج ہوگا۔ یہ بات بہت واضح ہے اور سمجھ بھی آتی ہے۔ لیکن قرآن ہی میں ذکر ہے سورہ کہف میں کہ ذوالقرنین نے لوہا تانبہ پگھلا کر دیوار بنائی جس سے بستی والوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا جائے۔ یہ قیامت کے نزدیک نکلیں گے۔تو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ وہ کون سے یاجوج ماجوج ہیں۔ کیونکہ آجکل کے یاجوج ماجوج بہت کامیاب اور ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ تو وہ کون تھے؟ کیونکہ تب تو زیادہ حامی اور سامی نسلیں ہوں گی۔ مہربانی فرما کر مجھے سمجھا دیں۔ اللہ آپ کو اس کی جزائے خیر دے، آمین۔ عائشہ امبر

جواب
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

ذوالقرنین کا زمانہ وہی ہے جس میں حزقی ایل نبی نے یاجوج ماجوج کا تذکرہ کیا ہے یعنی چھٹی صدی قبل مسیح۔ اس زمانے میں ان کی ایک بڑی تعداد ایشیا کے شمالی علاقوں میں آباد تھی۔ اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ پھیلتے گئے۔ ان کا معاملہ یہ تھا کہ یہ زیادہ تر غیر متمدن رہے اور یہ وحشی قبائل کے طور پر متمدن دنیا پر حملے کرتے رہتے تھے۔ خیال رہے کہ ان کے کچھ گروہ بھی متمدن زندگی اختیار کرلیتے تھے اور وہ بھی اپنی اس وحشی نسل کے حملوں کا شکار بن جاتے تھے۔

جس وقت ذوالقرنین نے ایشیا کے شمال کی سمت اپنی تیسری مہم شروع کی تو وہیں ان کا واسطہ ان لوگوں سے پڑا جن پر یاجوج ماجوج کا کوئی گروہ حملے کیا کرتا تھا۔ دیوار ان کے حملوں کو روکنے کے لیے بنائی گئی جس کا تذکرہ سورہ کہف میں اس طرح کیا گیا ہے:
(ذوالقرنین نے کہا) مجھے لوہے کی سلیں لا دو۔ (چنانچہ وہ فراہم کر دی گئیں)، یہاں تک کہ جب اُس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو پاٹ دیا تو کہا کہ دھونکو، حتیٰ کہ جب اُس کو آگ کر دیا تو حکم دیا کہ لاؤ، اب میں اِس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں۔ سو (یہ ایسی دیوار بن گئی کہ) یاجوج و ماجوج اب نہ اُس پر چڑھ سکتے تھے، نہ اُس میں نقب لگا سکتے تھے۔

ذوالقرنین نے کہا: یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے۔ پھر جب میرے پروردگار کے وعدے کا ظہور ہوگا تو وہ اِس کو ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ برحق ہے۔ اُس دن ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ ایک دوسرے سے موجوں کی طرح ٹکرا رہے ہوں گے اور صور پھونکا جائے گا اور اِس طرح ہم اُن سب کو اکٹھا کر لیں گے،(الکہف96-99:18)

آپ کو جو غلط فہمی لاحق ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار ڈھا دی جائے گی اور یاجوج ماجوج اس سے نکل کر حملہ کریں گے۔ آیت یہ بات نہیں کہہ رہی کیونکہ اگر یاجوج ماجوج قیامت کے دن اس دیوار کے ٹوٹنے کے بعد نکلنے والےہیں تو یہ معاملہ قرب قیامت کا نہیں رہا بلکہ قیامت تو آچکی ہوگی، اس کے بعد یاجوج ماجوج کا باہر نکل کر حملہ کرنے کا کیا سوال؟وہ تو باقی انسانیت سمیت فنا ہوچکے ہوں گے۔

اصل بات یہ بتائی جارہی ہے کہ ذوالقرنین کوئی متکبر انسان نہ تھے بلکہ خدا کی عظمت کے احساس میں جینے والے شخص تھے۔ انھوں نے ایک ایسی دیوار بنا دی تھی جو اگرچہ یاجوج ماجوج کا راستہ روکنے کے لیے بہت تھی، مگر خدا کے قہر کی یلغار سے کسی کو نہیں بچا سکتی تھی۔ چنانچہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس دیوار کو گرانا یاجوج ماجوج کے بس کی بات نہیں البتہ رب کا معاملہ جدا ہے۔ اس کی عظمت کا ظہور انسانی عظمت کی ہر نشانی کو فنا کر دے گا۔

یہاں پر ذوالقرنین کی بات پوری ہوگئی اور قرآن نے اسی پر عطف کرتے ہوئے اپنی بات بیان کرنا شروع کی ہے کہ یہی وہ دن ہوگا جب یاجوج و ماجوج پوری دنیا پر یلغار کر دیں گے۔ یہاں پر دو باتیں سمجھ لینی چاہئیں۔اول یہ یہاں ہم کی ضمیر (یعنی ان لوگوں) سے مراد وہی یاجوج ماجوج نہیں جو دیوار کے پیچھے بند کر دیے گئے تھے۔ وہ دیوار تو پہلے ہی گر چکی ہے اور وہاں موجود یاجوج ماجوج کا خاص گروہ کب کا اس علاقے سے نکل کر کہیں اور جاچکا ہے یا پھر وہاں ہے بھی تو متمدن زندگی اختیار کرچکا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقویم میں ایک دن ہزار برس کے برابر ہوتا ہے،( السجدہ 32:5، الحج 22:47)۔ چنانچہ مراد یہاں یہ ہے کہ جس دن یاجوج ماجوج کا ظہور ہوگا اور سامی اور حامی اقوام کے بجائے دنیا کی امامت انھی کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ پوری دنیا پر غالب ہوں گے، ہزار برس پر مشتمل اسی دن میں کسی وقت قیامت آجائے گی۔

یوحنا عارف کے مکاشفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِ ن کے خروج کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ایک ہزار سال بعد کسی وقت ہوگی اور بتدریج دنیا پر ان کا حملہ شدید ہوجائے گا اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گے۔ اور جب وہ یاجوج ماجوج مدینہ اور مکہ کو گھیر لیں گے تو قیامت آجائے گی۔

’’اور جب ہزار برس پورے ہوچکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور اُن قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی، یعنی یاجوج و ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لیے جمع کرنے کو نکلے گا۔ اُن کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا، اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گی اور مقدسوں کی لشکر گاہ اور عزیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور آسمان پر سے آگ نازل ہو کر اُنھیں کھا جائے گی۔‘‘(مکاشفہ ۲۰: ۷۔۹)

امید یہ ہے کہ اس تفصیل سے بات واضح ہوگئی ہوگی کہ قیامت سے قبل جن یاجوج و ماجوج کو چھوڑا جائے گا وہ دیوار کے پیچھے بند کوئی خاص گروہ نہیں بلکہ تمام دنیا کے یاجوج و ماجوج مراد ہیں۔

والسلام
ابویحییٰ