قتل کا انجام ۔ ابویحییٰ
۲۰۰۹ میں میں نے ایک مضمون ’’شیرون اور فرعون‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ یہ مضمون اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون پر فالج کے بعد طاری ہونے والی بے کسی اور فلسطینیوں پر ان کی طرف سے کیے گئے مظالم کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ حال ہی میں اطلاع ملی کے شیرون کا انتقال ہوگیا، مگر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ محض ایک افواہ ہے۔
پچھلے سات برسوں سے شیرون کا موت و زندگی کے درمیان فالج زدہ حالت میں لٹکے رہنا میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قانون سزا و جزا کا ایک نمونہ ہے۔ شیرون کی وجہ شہرت ١۹۸۲ کا صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں میں فلسطینیوں کا وہ قتل عام ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ شیرون اس قتل عام کا ذمہ دار تھا۔
انسانی جان کو قتل کرنا کوئی معمولی جرم نہیں۔ اس جرم کی شناعت اور سزا کے بیان میں قرآن مجید اتنا آگے گیا ہے کہ کسی اور جرم کے لیے نہیں گیا۔ یعنی ایک انسان کو مارنا پوری انسانیت کو مارنا ہے اور اس جرم کی سزا ابدی جہنم، خدا کی لعنت اورعذاب عظیم ہے۔ شیرون اس قتل عام کو یہودیت کی خدمت سمجھتا تھا۔ مگر کسی قاتل کے اپنے جرائم کو درست سمجھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شیرون کی سزا شروع ہوچکی ہے اور اب ہمیشہ بڑھتی چلی جائے گی۔
مگر یہ سزا صرف ایک یہودی شیرون کا مقدر ہی نہیں۔ ہر قاتل کا یہی انجام ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی جان کی حرمت سب سے زیادہ ہے۔ جب جب اس کو پامال کیا جائے گا خدا کا غضب بھڑکے گا۔ چاہے یہ حرمت فلسطین میں پامال ہو رہی ہو یا پاکستان میں۔ چاہے یہ کام یہودیت کی خدمت کے لیے کیا جائے یا اسلام کا نام لے کر۔ چاہے یہ حرمت کوئی یہودی پامال کرے یا کوئی مسلمان۔ سب کا انجام ایک ہی ہوگا۔