قبر کا فقیر ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں مجھے دو جنازوں میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ پہلا جنازہ ایک صاحب حیثیت شخص کا تھا۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے زندگی میں مادی اعتبار سے غیر معمولی کامیابیاں عطا فرمائی تھیں۔ وہ اپنے پیچھے بہت بڑا کاروبار اور وسیع وعریض گھر چھوڑ گئے تھے۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، بچوں کی خوشیاں دیکھیں اور اپنی طبعی عمر پوری کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ جبکہ دوسرا جنازہ ایک ایسے صاحب کا تھا جن کے پاس ملازمت تھی نہ اپنا گھر۔ ڈاکٹروں نے ان کے ایک معمولی مرض کی غلط تشخیص کی۔ آپریشن ہوا۔ ان کے جسم میں انفیکشن پھیل گیا اور وہ اپنی طبعی عمر سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
یہ محض میرے جاننے والے دو افراد نہیں، بلکہ دو کردار ہیں جو آزمائش کی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تفویض کیے ہیں۔ غربت اور امارت، پانا اور کھونا، خوشی اور غمی، آزمائش کی اس دنیا میں امتحان کے پرچے ہیں۔ اس آزمائش میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس نے اچھے برے حالات پیش آنے پر کیا رویہ اختیار کیا۔ اس نے اللہ اور بندوں کے حقوق کس حد تک پورے کیے۔ اس نے حق، انصاف اور احسان کا رویہ اختیار کیا یا ظلم، جہالت اور تعصب کا۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی شخص کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس پر نہیں کہ دنیا میں اس نے کیا کمایا۔ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرتے ہیں۔ وہ انسان کی مادی دنیا، اس کے جسم کی طرح، خود تخلیق کرتے ہیں۔ وہی طے کرتے ہیں کہ دنیا میں اسے کس قسم کے حالات سے گزرنا ہے۔ البتہ ایمان واخلاق کی دنیا انسان کو خود تشکیل دینا ہوتی ہے۔ یہی وہ روحانی دنیا ہے جو کل قیامت کے دن ابد تک باقی رہنے والی ایک مادی دنیا میں بدل جائے گی۔
انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت کی طرح، ایک دفعہ پھر غربت و امارت کے سارے فرق مٹ جاتے ہیں۔ ہرانسان کے پاس پہننے کو صرف کفن کا اور رہنے کو محض قبر کا گڑھا رہ جاتا ہے۔ قبر کا یہ گڑھا پکار پکار کر ہر انسان کو بتاتا ہے کہ مادی دنیا میں خالی ہاتھ آنے والا انسان، خالی ہاتھ ہی دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ ہاں جو چیز ساتھ جاتی ہے وہ حسن عمل کا سرمایہ ہے۔ جس کے پاس یہ سرمایہ ہے وہ قبر میں بھی امیر ہے۔ جس کے پاس یہ نہیں وہ قبر میں فقیر ہے۔ اور قبر کا فقیر دنیا کا سب سے بدنصیب فقیر ہوتا ہے۔