پائلٹ، سرجن اور لیڈر ۔ ابویحییٰ
ایک مغربی مصنف کے مطابق امریکہ میں بہت سے مریض آپریشن کے وقت صرف اس وجہ سے مرجاتے ہیں کہ سرجن اس چیک لسٹ کو نہیں سنتے جو ان کے اسسٹنٹ آپریشن سے قبل تمام ضروری احتیاطی اقدامات کے حوالے سے ان کو سناتے ہیں۔ اس کے برعکس ہوائی جہاز کے پائلٹ ایسی چیک لسٹ کو پوری توجہ سے سنتے ہیں اور ان کے مطابق جہاز اڑانے سے قبل اپنی تیاری کا جائزہ لیتے ہیں۔ مصنف کے مطابق اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ پائلٹ سے یہ باتیں اس کا افسر پوچھتا ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اس جہاز میں خود پائلٹ سوار ہوتا ہے اور جہاز گرنے کی صورت میں پائلٹ بھی مرتا ہے جبکہ آپریشن ناکام ہونے پر صرف مریض مرتا ہے؛ سرجن کو کچھ نہیں ہوتا۔
سرجن اور پائلٹ دونوں ایک نوعیت کے لیڈر ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں دوسروں کی تقدیر ہوتی ہے۔ مگر جس لیڈر کا ذاتی مفاد خطرے میں ہو وہ بہت سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے اور جس لیڈر کا ذاتی مفاد خطرے میں نہ ہو اس کی حساسیت کسی طرح کم ہوجاتی ہے۔
پاکستانی قوم کا ایک اہم بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے لیڈروں کے ذاتی مفادات کا اجتماعی مفادات سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی ناکامی سے ان کی ذاتی زندگی، معاشی حالات اور معاشرتی قد کاٹھ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چنانچہ وہ ناکام ہوتے ہیں اور اطمینان کے ساتھ اقتدار سے رخصت ہوکر مزے کی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔
پاکستانی قوم نے الیکشن کرانے کا مرحلہ طے کرلیا ہے۔ اب اسے دوسری چیز سیکھنی ہے۔ یہ ہے لیڈروں کا احتساب۔ ضروری ہے کہ ہر لیڈر اقتدار سے رخصت ہوتے وقت اپنے معاملات کا حساب دے اور ہر جرم کی سزا بھگتے۔ یہ نہیں ہوگا تو قوم اسی طرح خوار و خراب ہوتی رہے گی۔ اور لیڈر ایک کے بعد ایک اقتدار کے مزے لوٹ کر مزے سے اپنے گھروں کو لوٹتے رہیں گے۔