پھر فرض کیجیے ۔ ابویحییٰ
فرض کیجیے کہ آج رات آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ کسی شادی میں جانا ہے۔ آپ دونوں بینک جاتے ہیں اور بیگم کے پہننے کے لیے ساری جیولری نکلوا کر گھر لے آتے ہیں۔ راستے بھر میں آپ کسی چور راہزن سے ڈرتے رہتے ہیں۔ یہی حال شادی میں جاتے اور آتے وقت رہتا ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ آپ دونوں اطمینان اور بے فکری سے سو جاتے ہیں۔ صبح اٹھنے پر پتہ چلتا ہے کہ چور رات میں آئے اور خاموشی سے آپ کے گھر سے سارا زیور چرا کر لے گئے ہیں۔ آپ تھانے کے چکر لگاتے ہیں۔ پولیس کی منت کرتے ہیں کہ آپ کا کل سرمایہ لٹ چکا ہے مگر بے سود۔
فرض کیجیے آپ ایک نوجوان بچے کے باپ ہیں جس سے آپ کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ وہ روز کالج جاتا ہے۔ محنت سے پڑھتا ہے۔ آپ خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ ایک روز آپ کو پتہ چلتا ہے کہ کالج سے واپسی پر اسے ایک بس نے ٹکر مار دی۔ آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ آپ دیوانہ وار دفتر سے ہسپتال بھاگتے ہیں۔ پھٹی آنکھوں سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہیں جو آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی بلک بلک کر رو رہی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر آپ کو آکر بتاتا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ آپ ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ دیتے ہیں کہ میرے بچے کو بچا لیجیے۔
فرض کیجیے کہ چند دن سے آپ کی طبیعت کچھ خراب ہے۔ مگر ایسی نہیں کہ چھٹی لے کر گھر بیٹھ جائیں۔ مگر آپ مکمل نارمل بھی نہیں۔ آپ اپنے مسائل لے کر فیملی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ کچھ دوائیں دیتا ہے۔ کچھ ٹیسٹ لکھتا ہے۔ آپ دوا کھاتے ہیں۔ فائدہ ہوجاتا ہے۔ مگر احتیاطاً آپ ٹیسٹ بھی کرا لیتے ہیں۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آنے پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کینسر کا جان لیوا مرض لاحق ہے۔ آپ کے گھر میں کہرام مچ جاتا ہے۔ پھر علاج شروع ہوتا ہے۔ لاکھوں روپے برباد کرکے اور بے پناہ تکلیف اٹھا کر بھی آپ ہسپتال کے بستر پر پڑے موت کی آہٹ سننے پر مجبور ہیں۔ آپ کے بچے تڑپ رہے ہیں۔ بیوی کے چہرے پر تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ آپ کی دنیا بھی اندھیر ہوچکی ہے۔
اطمینان رکھیے۔ ہم صرف فرض کر رہے ہیں۔ ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ آپ نے جیولری باحفاظت بینک لاکر میں رکھوا دی۔ آپ کا بچہ روز پڑھنے جاتا ہے اور خیر سے آجاتا ہے۔ آپ کی طبیعت گرچہ ناساز ہوئی مگر معمولی سا مسئلہ تھا جو دوا سے حل ہوگیا۔ اس دنیا میں اس جیسی ہزار چیزیں فرض کی جاسکتی ہے۔ مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ آپ کو کسی کی منت نہیں کرنی پڑتی۔ کسی کے آگے گڑگڑانا نہیں پڑتا۔ آپ کی بیوی بلک بلک کر نہیں روتی۔ آپ کے بچے تڑپتے نہیں۔ آپ کا مال محفوظ ہے۔ عزت کو بٹہ نہیں لگا۔ جان عافیت میں ہے۔
چلیے دو لمحے کے لیے ایک دفعہ پھر فرض کرلیجیے کہ یہ سب کچھ ہوچکا ہے۔ آپ کا مال لٹ گیا ہے۔ آپ کی جوان بیٹی کی آبرو پر حرف آگیا ہے۔ آپ کا بچہ آپریشن تھیٹرمیں ہے۔ آپ خود ہسپتال میں پڑے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ کرب کے ان لمحوں کا تصور کیجیے۔ سوچیے کہ آپ کو کہاں کہاں بھاگنا اور کن کن لوگوں کے آگے گڑگڑانا پڑ رہا ہے۔ اور پھر اس ہستی کا تصور کیجیے جو عافیت کا قلعہ بن کر آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
وہ آپ سے کچھ نہیں مانگ رہا۔ مگر آپ اس کے قدموں پر احسان مندی کے جذبے سے گر جائیے کہ اس نے آپ کے مال کو بچا لیا۔ وہ اپنے احسانوں پر اپنی تعریف نہیں سننا چاہتا۔ مگر آپ بہتی ہوئی آنکھوں اور لزرتے ہوتے ہونٹوں سے اس کی تعریف کیجیے کہ آپ کی اولاد محفوظ ہے۔ وہ آپ کے ہر گناہ کو دیکھ کر بھی انجان بن رہا ہے اور عافیت، نعمت اور زندگی نہیں چھین رہا۔ آپ بھی عزم کرلیں کہ اب کبھی اس کو ناراض نہیں کریں گے۔
ابھی وقت ہے۔ جس نے دوسرے کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔ اس کے سامنے جھک جائیں۔ جس نے دوسروں کے سامنے تڑپنے سے بچا لیا اس کے سامنے رو لیں۔ جس نے دوسرے کا احسان اٹھانے سے بچا لیا اس کی بندگی اختیار کرلیں۔