پانی مت ڈھونڈ پیاس پیدا کر ۔ سید اسرار احمد
ایک رات ایسی بھی آئی جب ایک بے نام بے چینی نے اسے نیند سے ناآشنا کر دیا، دل ایک مضطرب بیداری بن کر آنکھوں میں بھر آیا، درختوں میں ہوا کی سرسراہٹ قدرت کے عالی شکوہ گنبد میں کسی سانپ کی پھنکار کی پُراسرار گونج معلوم ہوتی، گویا فطرت کی آہ سرد ہے، یا وجدان میں الہام کی سرگوشی، جو ایک عظیم الشان کائنات کے خاموش اندھیرے میں اُسے غرقِ تحیر کر رہی تھی، ہر رات نئے سوالات ناگ کے پھن کی مانند ذہن میں اُٹھتے رہتے، اُس نے سوچا:
اے ایشور! تیری ہدایت کو پانا اس قدر مشکل کیوں ہے!!!
اُس پر زمانے بیت گئے، من میں سوالات اور شکوک و شبہات سانپ بن کر لوٹتے رہے، وہ ادھوری خواہشات کا استعارہ ناکام تمنّاؤں اور سلگتے ارمانوں کے کشکول لیے زندگی سے یوں لٹک رہا تھا جیسے دسمبر میں نرگس کے سفید پھول کی پنکھڑی پر جما شبنم کا قطرہ۔۔۔ جسے ہلکی سی دھوپ کی تمازت درکار تھی، اور وہ پگھل کر پانی ہوجاتا۔
وہ روشی و نور کی راہ پانے کے لیے اندھیروں میں بھٹکتا رہا، زیست سے بس اتنی ہی نسبت رہی جیسے پلکوں پر اٹکا آنسو، جسے بس ایک جھپکی کی ضرورت تھی۔۔۔ اب گِرا کہ تب گِرا!
ایک روز دل کی دنیا میں صدا بلند ہوئی۔
مہاراج! ہدایت جس قدر اہم اور ضروری ہے اسی قدر مخفی کیوں ہے؟
کیا کہنا چاہتے ہو بالک؟
جواب ملا۔
میرا مطلب ہے مہاراج!
جس ہدایت کو پانے اور اسے سمجھنے کے لیے من کے سچے ودیارتیوں (متلاشیٔ حق) پر زمانے بیت جاتے ہیں مدتیں گزر جاتی ہیں، خود میں نے بھی اس جیون بھید کو پانے کے لیے اشلوک پڑھے، مقدس اوراق میں غرق رہا، ہر ایک لغزش مجھے گویا غرقابی کی گود تک لے جاتی، میری دھڑکنیں بے ترتیب ہوجاتیں، میں نے چلے کاٹے۔ معبدوں، مندروں، گرجوں چرچوں اور مسجدوں کی خاک چھانی۔ پامال راستوں سے ہزار بار گزرا۔ گھونگھرو باندھے۔ ہر گلی میں تماشہ کیا۔ کہ پیش یار می رقصم۔ سربازار می رقصم۔
مہاراج! ہدایت کو ڈھونڈنے میں اس قدر جوکِھم اور پیچیدگیاں کیوں ہیں؟
اسے پانا آسان کیوں نہیں؟ خدا کیوں نہیں ساری انسانیت کو شروع ہی سے ایک راستے پر ڈال دیتا؟ یا اُس رستے کو سمجھنا آسان کر دیتا، یہ رنگ رنگ کے عقیدے، یہ بھانت بھانت کی بولیاں، یہ سورگ و نرک کے جھگڑے، یہ دھرم کے نام پردنگے اور قتل، یہ انالحق کے نعرے، اور ان نعروں کے بیچ سسکتی انسانیت۔۔ آخر کیوں؟؟
سُنو بالک!
ودیارتی (متلاشیٔ حق) کی بے قراری پر اندرکی آواز اور گہری ہوگئی:
بالک! اتہاس گواہ ہے، انسان کے من میں جس چیز کی سچی تڑپ اور اِچھّا (طلب) ہوتی ہے وہ چیز اسے مل کر رہتی ہے، جیون بھید ساگر کی تہہ میں بھی ہو تو سچّے ودیارتی ڈھونڈ لاتے ہیں، اس لیے کہ جس چیز کے تم سچے طالب ہو وہ چیز بھی تم سے ملنے کو اتنی ہی بے قرار و بے چین ہوتی ہے۔
ودیارتی! اسے پانا مشکل نہیں ہے، خُود کو اس کا سچا طالب بنانا مشکل ہے،
بالک! پانی مت ڈھونڈ، پیاس پیدا کر!
تُم جاننا چاہتے ہو، ہدایت ڈھونڈنی کیوں پڑتی ہے؟ کیونکہ ہدایت انمول ہے، یہ بڑھیا مال گھٹیا چیز کی طرح جھولی میں نہیں ڈالا جاتا،
اس کے لیے بھیک نہیں مانگ، اپنے من کو کشکول بنا اور پورا وجود بھیک کی صوُرت بنا لے، کیونکہ اس کا بدلہ ہمیشگی کا چین و سکون ہے۔
خُدائے لم یزل نے سچائی اور حقیقت کو چھپایا ہی اس لیے ہے کیونکہ جس خزانے کو ڈھونڈ کر پایا جاتا ہے اس کے ساتھ انسان کا تعلق انتہائی گہرا اور مضبوط ہوتا ہے، عقل اور شعور کو تھکا کر جس ایمان کو پایا جائیگا وہی معرفت بنے گا، وہی ایمان زندگی میں طوفان بن کر شامل ہوگا اور ظاہر و باطن کو سرسے پاؤں تک بدل ڈالے گا، من میں وہ مٹھاس گھول دے گا جو تُجھے شہد میں بھی نہیں ملے گی۔ بالک! جس چیز کو تم بے محنت اور بن کوشش پاؤ گے اس کے ساتھ تمہارا لگاؤ بھی کم ہوگا۔
خُدا کا مقصد تمہیں پاکیزگی دینا ہے، تم جب جب اُس کے عشق میں گھنگھرو باندھے گلی و بازارمیں رقصاں رہے، پورب و پچھم میں دھرتی و پربت بھی جھومتے رہے۔
آج تم ودیارتی (متلاشیٔ حق) ہو کل انسانیت کے لیے موجب ہدایت بنو گے، جیون کی جو جو رات تم پر بے قراری بن کر نازل ہو وہ بے قراری خُدا کا انعام ہے، اس بے قراری کی دستک جب جب من میں پاؤ، تو سمجھ جانا کہ ہدایت تمہارے اردگرد منڈلا رہی ہے۔
کسی کے من میں ہدایت کی سچی طلب کا جاگنا، خُود پانے ہی کا نقطۂ آغاز ہے۔
ہدایت کا پالینا اور ہدایت کا سچا طالب ہونا، ایک ہی سفر کے اگلے اور پچھلے مرحلے ہیں،
سُنو عزیز من، سچے ودیارتی!
جو ہدایت کا طالب ہوگا وہ نور ہدایت سے کبھی محروم نہیں رہے گا!