پاکستان کے عروج کا راستہ ۔ ابویحییٰ
ڈاکٹر عشرت حسین بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک مایہ ناز ماہر معیشت ہیں۔ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابقہ گورنر اور ۤئی بی اے، کراچی جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔ دو عشرے تک ورلڈ بینک میں کام کرنے کے علاوہ وہ اس وقت بھی کئی ملکی اور عالمی اداروں کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلال امتیاز کے علاوہ پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان پاکستان بھی مل چکا ہے۔
Governing the Ungovernable
حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب Governing the ungovernable کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ بعض پہلوؤں سے یہ پاکستان کے مسلسل قومی زوال اور بحران کا انتظامی پہلو سے ایک بہت عمدہ جائزہ ہے۔ ہر وہ شخص جو سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کے مسائل کا حل چاہتا ہے، اسے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ناشر یعنی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس جلد ہی اس کا اردو ترجمہ بھی شائع کرے کیونکہ ملک کی اکثریت اردو زبان میں اس کے مضامین کا بہت بہتر انداز میں احاطہ کرسکتی ہے۔
اس کتاب کا بنیادی مقدمہ اس حقیقت کی بنیاد پر رکھا گیا ہے کہ پاکستان نے اپنی آزادی کے بعد ابتدائی چالیس برسوں میں تمام تر مسائل کے باوجود زبردست ترقی کی تھی۔ آزادی کے فوراً بعد پاکستان کے پاس ترقی کے لیے کوئی زرعی یا صنعتی بنیاد، کوئی انفراسٹرکچر موجود ہی نہیں تھا۔ پھر 1947 سے 1990 کے عرصے میں پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ جنگوں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، بھٹو صاحب کی تباہ کن نیشنلائزیشن کی پالیسی، جنرل ضیاالحق کے زمانے کی افغان جنگ اور اس کے تباہ کن نتائج جیسے اسلحہ کی فراوانی، منشیات اور انتہا پسندی وغیرہ کا سامنا رہا۔ مگر ان سب کے باوجود ملک معاشی ترقی کی دوڑ میں دنیا کے دس تیز ترین ترقی کرنے والے ترقی پذیر ممالک میں شامل رہا۔ اس عرصے میں چین اور بھارت جیسے ممالک ہم سے بہت پیچھے تھے۔
مگر اس کے بعد 1990 کی دہائی سے ترقی کا یہ عمل نہ صرف رکتا ہے بلکہ معاشی طور پر ہم مسلسل زوال کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیںاور اس وقت جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے اس کتاب میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ ہماری تاریخ کے اس دوسرے دور میں ہمارے زوال کی وجہ کیا ہوئی۔ انھوں نے اپنی کتاب میں ان مقبول عام تصورات کی نفی کی ہے جن کو پاکستان کے اس زوال کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ جیسے فوج کا اقتدار پر قبضہ، غیرملکی امداد کا بند ہونا، دہشت گردی اور بیرونی خطرات، بین الاقوامی معاشی حالات کے اثرات اور انڈیا کے ساتھ دشمنی کی بنا پر دفاعی اخراجات کا بڑھنا وغیرہ۔
ان کے نزدیک ہمارے زوال کی اصل وجہ ان قومی اداروں کا زوال ہے جنھوں نے پہلے دور میں پاکستان کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جیسے پی آئی ڈی سی جس نے ملک میںصنعتوں کا جال بچھا دیا۔ جو لوگ صنعتیں لگانا چاہتے انہیں پکک (PICIC) اور آئی ڈی پی پی جیسے ادارے قرض دے دیتے۔ یوں ملک صنعتی طور پر تیزی سے آگے بڑھا۔ پھر پلاننگ کمیشن پاکستان نے ملک کی ترقی کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنائے۔ یہ وہ منصوبے تھے جن کو بعض دیگر ممالک جیسے کوریا وغیرہ نے ساٹھ کی دہائی میں اپنے ہاں استعمال کیا اور غیرمعمولی ترقی کی۔ پھر ایگریکلچرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن جیسا ادارہ جس نے زرعی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ایک اور مثال پی آئی اے کی ہے جس کا اپنا شمار نہ صرف دنیا کی بڑی ائیر لائنز میں ہوتا تھا بلکہ اس نے کئی ایسی ائیر لائن کی بنیاد رکھی جیسے امارات یا سنگاپور کی فضائی کمپنیاں جو اب دنیا کی بہترین ائیر لائن سمجھی جاتی ہیں۔
اس کے بعد نوے کی دہائی میں سیاسی حکومتوں نے اپنے مفادات کے خاطر سول سروس کے انتظامی ڈھانچے کو تباہ کرنا شروع کر دیا ۔میرٹ کے بجائے پارٹی سے وابستہ یا ذاتی وفاداری کی بنیاد پر تقرریاں شروع ہوئیں اور اپنی پسند و ناپسند کو معیار بنا کر افسران کی تقرریاں ہوئیں تو ادارے تباہ ہوگئے۔ چنانچہ ان کے نزدیک مسئلے کا حل یہی ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات کی جائیں۔ یہ ادارے ہی ہیں جن کی دوبارہ بحالی ملک کو ترقی کے راستے پر دوبارہ لاسکتی ہے۔ کیونکہ قومی سطح کے یہی وہ ادارے تھے جنھوں نے پہلے دور میں پاکستان کی ترقی میں غیرمعمولی کردار ادا کیا تھا اور ان کے بغیر ترقی کا سفر ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے دو درجن کے قریب اداروں کی نشاندہی کی ہے کہ جن کو میرٹ، شفافیت اور اعلیٰ کارکردگی کا نمونہ بنا دیا جائے تو ان کے اثرات سے باقی جگہوں پر آہستہ آہستہ بہتری آتی چلی جائے گی۔
کتاب کے آخر میں انھوں نے سیاسی جماعتوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ ان کی اس تجویز کو اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر قبول کریں کیونکہ جو سیاسی جماعت بھی اقتدار میں آئے گی یہ اصلاحات آخرکار اس کے لیے بھی بہتر ثابت ہوں گی۔
ہمارا ہمہ گیر قومی زوال
ہم نے کوشش کی ہے کہ کتاب کے بنیادی نکات کااحاطہ کرلیا جائے تاکہ جو لوگ کتاب پڑھنے کا موقع نہ پائیں وہ کم از کم اس کے اصل پیغام اور استدلال سے واقف ہوسکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں علم و دانش کی روایت بڑی حد تک مردہ ہوچکی ہے، یہ ضروری ہے کہ کوئی مفید اور تعمیری علمی کام سامنے آئے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک متعارف کرانا چاہیے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے لوگ جلسوں اور ٹی وی کے ٹالک شوز میں سیاستدانوں کی تقریریں سنتے اور اخبارات میں صحافیوں کے تنقیدی کالم پڑھتے پڑھتے بے زار ہوچکے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ الزام و بہتان سے ہٹ کر تحقیق پر مبنی کوئی تعمیری اور مثبت بات بھی لوگوں تک پہنچائی جائے۔
تاہم اس حوالے سے کچھ اور چیزیں ہیں جن کا بیان اس موقع پر ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوموں کا عروج و زوال اس خاکسار کی دلچسپی کا خصوصی موضوع رہا ہے اور اس حوالے سے اس کی ایک کتاب ”عروج و زوال کا قانون اور پاکستان” شائع بھی ہوچکی ہے۔
اس عاجز کے نزدیک کسی قوم کا عروج و زوال معاشی ترقی کے پیمانے پر نہیں ناپا جاسکتا۔ ہاں یہ ایک اشاریہ یا انڈیکیٹر ضرور ہوتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے اس اہم اور بنیادی مسئلے کا جواب دینے کی قوم میں کیا صلاحیت ہے۔ اس پہلو سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب اس پہلو سے بڑی قیمتی ہے کہ وہ تحقیق اور حقائق کی بنیاد پر یہ بتاتی ہے کہ ہم اس وقت قومی زوال کی کس سطح کو چھو رہے ہیں اور اس کے بعض بنیادی اور اہم اسباب کیا ہیں۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمارا زوال ہمہ گیر نوعیت کا ہے جس کا تعلق کسی ایک میدان سے نہیں بلکہ ہم مکمل قومی زوال کا شکار ہیں۔ معاشی ترقی میں پیچھے رہ جانا تو اس کا ایک اظہار ہے۔ باقی شعبہ ہائے زندگی میں بھی ہمارا معاملہ کچھ مختلف نہیں۔ آپ کھیلوں کو لے لیجیے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور بعض دیگر شعبوں میں دنیا بھر میں سب سے آگے تھا۔ اس وقت نہ کھلاڑیوں کے پاس یہ وسائل تھے نہ انھیں اپنی فیلڈ میں اتنا پیسہ ملتاتھا جتنا آج ملتا ہے۔ میری یادداشت اگر غلطی نہیں کر رہی تو نوے کی دہائی کی ابتدا میں پاکستان کے پاس دنیا کے چار کھیلوں کے ورلڈ چیمپئین کے اعزازات تھے۔ یہی معاملہ فنون لطیفہ کا ہے۔ پاکستانی فلم، موسیقی، ڈرامے، ادب، شاعری سب جگہ آپ دیکھیے کہ نوے کی دہائی تک آپ کو بڑے بڑے لوگ اور شاہکار نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دم سے زوال نظر آئے گا۔ خود سیاست کا معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے آج کے سیاستدانوں کو قدم قدم پر آزادی صحافت کی بنا پر پرنٹ، الیکٹرونک میڈیا اور اب سوشل میڈیا کی بھرپور تائید حاصل ہے۔ انھیں کسی قسم کے سیاسی جبر کا سامنا بھی نہیں۔ لیکن نوے تک کے سیاستدانوں کے پاس ان میں سے کوئی سہولت موجود نہ تھی۔ مارشل لا کا جبر، کوڑے، جیلیں اور سماج سے کسی قسم کی تائید نہ ہونے کے باجود ان کی بصیرت، شائستگی، دیانت یقینا آج کے سیاستدانوں سے بہت بہتر تھی۔
ایک اور اہم میدان تعلیم کا ہے۔ ہمارا تعلیم کا بجٹ پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔ پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ مگر معیار تعلیم کس درجہ کا پست ہوچکا ہے، یہ ایک معلوم حقیقت ہے۔ دنیا بھر میں ہماری ڈگریاں ناقابل اعتماد ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم یاتو نقل پر استوار ہے یا پھر رٹے پر۔ جبکہ اس سے پہلے تعلیم کی شرح یقینا کم تھی مگر معیار نسبتاً بہت بہتر تھا۔ یہی کم و بیش زندگی کے ہر شعبے کا معاملہ ہے۔
یہ ہے وہ اصل بات جسے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارا زوال ہمہ گیر ہے۔ صرف معاشی زوال کو ٹھیک کرنے سے یقینا ایک شعبہ زندگی بہتر ہوگا۔ جیسا کہ پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔ مگر یہ امکان موجود رہے گا کہ ترقی کا یہ عمل کسی بھی وجہ سے رک جائے اور صورتحال اس سے زیادہ خراب ہوجائے جتنی پہلے تھی۔ یہ سب ہم جنرل پرویز مشرف کے دور کے بعد دیکھ چکے ہیں۔
قومی زوال کی دو اقسام
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ہمہ گیر زوال کا سبب کیا ہے اور اس کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے جواب میں یہ خاکسار سب سے پہلے ایک مثبت بات سامنے رکھنا چاہے گا جو اس نے اپنی کتاب عروج و زوال کا قانون میں بیان کی ہے۔ وہ یہ کہ قوموں کے زوال کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک زوال وہ ہوتا ہے جو کسی قوم کو اپنی مرحلہ زندگی کے اختتامی مراحل میں پیش آتا ہے۔ ایک فرد کی طرح قوم بھی اپنی زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنے فطری اختتام تک پہنچتی ہے۔ جب یہ مرحلہ آجائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو تباہی سے نہیں بچا سکتی۔ اس کے بعد بیشتر قوموں کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ کسی وجہ سے اس کا وجود ختم نہ بھی ہو تو وہ بس اپنے درخشندہ ماضی کا ایک بدنما سایہ بن کر کسی بڑی طاقت کے زیر سایہ بمشکل اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ہم زوال کی ایک دوسری قسم کا شکار ہیں جو قوموں کو اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ ہم بھی اپنی قومی زندگی کے ابتدائی دور میں ہیں۔ ہماری مثال اس نوجوان کی ہے جسے شدید قسم کے مرض لاحق ہوجائیں۔ ان امراض کا علاج نہ کیا جائے تو یہ موت یا معذوری کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن درست علاج کر دیا جائے تو قوم دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دنیا میں ایک قائدانہ کردار ادا کرسکتی ہے۔
ہمارا اصل مرض اور اس کی وجہ
اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا مرض ہے جو ہمیں لاحق ہوا ہے اور کیوں لاحق ہوا ہے۔ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہماری تمام خرابی کی وجہ ہمارا اخلاقی زوال ہے۔ یہ وہ مرض ہے جو کسی قوم کو زندگی کے کسی بھی مرحلے پر لاحق ہوجائے، اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ ہمیں یہ مرض لاحق ہونے کی وجہ یہ بنی کہ آزادی کے بعد ہماری فکری قیادت نے قوم کی اخلاقی تربیت اور فکری تطہیر کا کام چھوڑ کر سیاست کے عملی میدان کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنا لیا۔ سیاست اچھے اچھے لوگوں کا اخلاق خراب کر دیتی ہے۔ سیاست میں اخلاق آخری چیز ہوتی ہے جس کی کوئی حیثیت ہوتی ہے۔
ہم ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ سیاستدانوں کو اخلاقی اصولوں سے بے نیاز ہونا چاہیے۔ سیاست کو بھی اخلاقی اصولوں کا پابند ہونا چاہیے اور اس کے لیے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے۔ مگر یہ جدوجہد آپ سیاست کے میدان میں اتر کر نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے آپ کو سیاست سے باہر رہ کر معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو رواج دینا پڑتا ہے۔ لوگوں کی نگاہ میں اخلاقی اقدار کو سب سے اہم بنانا پڑتا ہے۔ مگر جب حال یہ ہو کہ عوام خود اپنے عمل میں اخلاقی تصورات کی خلاف ورزی کرتے ہوں تو پھر سیاستدانوں کو جن کے پاس ساری طاقت، پیسہ اور اقتدارہوتا ہے، کس طرح اخلاقی اصولوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں جو شخص کوئلے کی اس کان میں اترے گا اس کے دامن پر بہرحال سیاہی لگے گی۔ خاص کر ایسے معاشرے میں جہاں بیشتر لوگوں کے دامن داغدار ہوں اور دامن کا داغدار ہونا کوئی عیب بھی نہ سمجھا جائے۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ ہماری فکری قیادت نے عوام کی تربیت کا میدان چھوڑ کر سیاست کا راستہ اختیار کرلیا۔ عوام میں اگر کوئی تربیتی کام کیا بھی تو صرف منفی سوچ پھیلانے کا کام کیا۔ یعنی مغرب سے نفرت، حکمرانوں سے نفرت، طاقتور طبقات سے نفرت پھیلانے کا کام۔ نفرت پھیلانے کا عمل انسان کو صرف یہ درس دیتا ہے کہ دوسرے غلط ہیں انھیں ٹھیک ہونا چاہیے۔ اس کے بعد انسان کی توجہ اپنی طرف نہیں رہتی۔ وہ اپنی اصلاح نہیں کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف ہمارا معاشرہ اجتماعی اخلاقی زوال کا شکار ہوا اور دوسری طرف اس زوال سے بروقت متنبہ کرنے والی فکر و دانش کی کوئی روایت معاشرے میں موجود ہی نہ تھی۔ یہ زوال آگے بڑھا تو اپنے ساتھ تربیت کے روایتی ادارے بھی بہا کر لے گیا۔ ہمارے تربیت کے تمام ادارے ایک ایک کرکے اپنا کام چھوڑتے چلے گئے۔ جیسے والدین، اساتذہ، علما، دانشور وغیرہ۔ اور اس زوال کے ساتھ منفی سوچ کے فروغ نے معاشرے میں اپنی اپنی اصلاح کا داعیہ بالکل ختم کر دیا۔ ہر شخص کے لیے اصلاح کا مطلب دوسرے کی اصلاح بن گیا۔ ہر شخص اپنی آنکھ کا شہتیر بھول کر دوسروں کی آنکھ کا تنکا ڈھونڈنے میں مصروف ہوگیا۔
جب اخلاقی زوال شروع ہوتا ہے تو اس کا بنیادی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اعلیٰ شخصیات سامنے آنا بند ہوجاتی ہیں۔ اعلیٰ شخصیات، بااصول شخصیات، قومی تعمیر کا کام کرنے والی شخصیات، قربانی دینے والی شخصیات؛ اصلاً اعلیٰ اخلاقی شخصیات ہوتی ہیں۔ جب اخلاقی اقدار نے اپنی قدر کھوئی تو ایسی شخصیات بھی ناپید ہوگئیں۔ یہی وہ بات ہے جو ڈاکٹر عشرت العباد نے اپنی کتاب میں کہی ہے۔ یعنی قومی اداروں کو وہ لوگ ملنا بند ہوگئے جو معاملات کو اصول اور میرٹ پر چلاتے تھے۔ اب صرف وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے کرپشن، اقربا پروری، بے اصولی، قانون کی خلاف ورزی کو اپنا چلن بنا لیتے ہیں۔ جس کے بعد اداروں نے تباہ ہونا ہی تھا ۔
کرنے کا کام
تاہم جیسا کہ پیچھے عرض کیا کہ پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ اپنی قومی زندگی کے ابتدائی دور میں ہے۔ اس دور میں قوموں میں اعلیٰ افراد اسی طرح خودبخود پیدا ہوتے ہیں جس طرح ایک نوجوان میں نیا خون خود ہی بن رہا ہوتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ معاشرے میں موجود ان زندہ افراد کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کی جائے۔ اخلاقی اقدار، اصول اور شائستگی پر مبنی اعلیٰ رویوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ اس کے ساتھ چارسو پھیلی مایوس اور منفی سوچ سے نوجوانوں کو بچایا جائے۔ غیر ضروری جذباتیت کا اسیر ہونے سے روکا جائے۔ انتہا پسندی، نفرت اور تعصب کے زہر سے بچاتے ہوئے عملیت، معقولیت، اعتدال اور صبر و برداشت کی طرف بلایا جائے۔ لوگوں کو جلد بازی اور فوری تبدیلی کے ناقابل تعبیر خواب دکھا کر مزید مایوس کرنے کے بجائے ایک طویل صبرآزما جدوجہد پر آمادہ کیا جائے۔
ہماری قبل از آزادی کی تاریخ کے بدترین دنوں میں تین عظیم فکری رہنماؤں نے یہ کام کیا ہے۔ ان کے کام کا تفصیلی ذکر ہم نے اپنی کتاب عروج و زوال کا قانون اور پاکستان میں کیا ہے۔ یہ لیڈر شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان اور علامہ اقبال ہیں۔ پاکستانی قوم اصلاً انھی تینوں کا فکری پروڈکٹ ہے۔ بدقسمتی سے ان تین بزرگوں کی قومی رہنمائی کا تسلسل بعد از آزادی جاری نہیں رہ سکا۔ لیکن آج ہمارے نوجوانوں میں سے کچھ لوگ بھی اگر قربانی اور ایثار کے جذبے سے کام لے کر ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کرلیں اور مثبت بنیادوں پر قومی رہنمائی کے کام کو اپنی زندگی بنا لیں تو پاکستانی قوم بیس برس میں بہت ترقی کرسکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا اور نفرت، انتہا پسندی، جذباتیت، بے اصولی، مفاد پسندی اور صرف اپنی ذات کی تعمیر ہی معاشرے کا چلن رہی تو پھر ایک عظیم تباہی ہماری منتظر ہے۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث زحمت نہیں، باعث رحمت بن کر رہیے۔