نقطہ نظر ۔ ابویحییٰ
کہتے ہیں کہ ایک تصویر ہزار الفاظ بول سکتی ہے۔ لیکن یہ تصویر کی نہیں انسانی آنکھ کی خوبی کا بیان ہے جو خارجی دنیا کو سمجھنے اور جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ تاہم آنکھوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس میں کئی محدودیتیں بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً انسانی آنکھ اپنے سامنے موجود منظر کا مکمل طور پر احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن انسانی ذہن گہرے طور پر اور جزئیات میں جا کر صرف عین نظر کے سامنے والی چیز جس پر انسان کا فوکس ہوتا ہے، اسی کو سمجھتا ہے۔ باقی چیزیں نظر آنے کے باجود انسان دیکھ نہیں پاتا۔
اس بات کو ٹی وی سے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ کسی نیوز چینل پر چلتی ہوئی خبروں کی پٹی کو پڑھنا شروع کر دیں۔ یہ کرتے وقت آپ کی نظر میں ٹی وی اسکرین بلکہ ارد گرد کی دیوار یا الماری بھی ہوگی۔ مگر خبروں کی پٹی کو پڑھتے وقت آپ کو یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ اس وقت اسکرین پر کیا مناظر بدل رہے تھے۔ ان مناظر کو دیکھنے کے لیے آپ کو نظروں کا فوکس ان کی طرف کرنا ہوگا۔ غرض آپ دنیا کے کسی بھی منظر پر نظر ڈالیں آپ کو بہت کچھ نظر آئے گا لیکن ذہن قبول صرف اسی کو کرتا ہے جسے نظریں گاڑھ کر پوری توجہ سے دیکھا جائے۔ یہیں سے ہماری زبانوں میں نقطہ نظر یا پوائنٹ آف ویو کے الفاظ داخل ہوئے ہیں۔ یعنی وہ فکر جو ہماری نگاہ کا مرکز ہو۔
انسان اس دنیا میں جس آزمائش میں ہے اس میں سب سے بنیادی چیز صحیح نقطہ نظر کو دریافت کرنا ہے۔ اس امتحان میں عمل کی حیثیت ثانوی ہے۔ اگر نقطہ نظر غلط ہے تو زیادہ عمل بھی کچھ نہیں اور نقطہ نظر درست ہے تو تھوڑا عمل بھی نجات کے لیے کافی ہے۔
تاہم صحیح نقطہ نظر کو دریافت کرنے کی اس آزمائش میں اصل مصیبت یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں شعور کی عمر میں پہنچنے کے بعد نہیں بھیجا جاتا بلکہ ایک بے سمجھ بچے کے طور پر جنم لیتا ہے اور بڑا ہونے سے قبل اس کے والدین اور قریبی ماحول اس کا ایک نقطہ نظر بنا چکے ہوتے ہیں۔ وہ کسی خاص عقیدے یا نظریے کو اس کی نگاہوں کا مرکزی خیال بنا چکے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کا شروع میں کوئی خاص نظریہ نہیں ہوتا لیکن کچھ دینی ذوق کی بنا پر وہ کسی گروہ، جماعت یا فرقے میں شامل ہوجاتا ہے اور وہاں یکطرفہ باتیں سنا سنا کر کوئی خاص نقطہ نظر اس کے ذہن کا مرکزی خیال بنا دیا جاتا ہے۔
اب یوں نہیں ہوتا کہ دنیا میں دوسرا کوئی نقطہ نظر پایا نہیں جاتا۔ سب موجود ہوتے ہیں اور انسان کو نظر بھی آرہے ہوتے ہیں، مگر ٹی وی کی پٹی کی طرح چونکہ اس کا ذہن ایک خاص چیز ہی میں دلچسپی رکھتا ہے، اس لیے وہ خبریں ہی پڑھتا ہے اور باقی چیزیں نظر انداز کر دیتا ہے۔ کوئی دوسرا توجہ دلائے تو وہ اسے غلط اور گمراہ کہتا ہے۔ کبھی وہ دوسری حقیقت کو درست سمجھنا بھی شروع کر دے تو اس کا ابتدائی ماحول زبردست مزاحمت کرتا ہے۔ وہ طرح طرح کے نکتے اٹھا کر اس کے تعصب کو بھڑکاتا ہے اور یوں انسان سچائی کو سامنے پا کر بھی اسے دیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
اس محرومی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ اس حقیقت کو جان لینا ہے کہ انسان اس دنیا میں حالت امتحان میں ہے۔ اس امتحان میں ناکامی کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے۔ یہ امتحان عمل سے پہلے صحیح نقطہ نظر دریافت کرنے کا امتحان ہے۔ اس میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان نظریں اپنے موجودہ نقطہ نظر سے ہٹائے، دوسرے حقائق غور سے دیکھے اور انھیں سمجھے۔ پھر تقابل کر کے دیکھے کہ سچائی کہاں ہے؟ جو انسان یہ نہیں کرے گا وہ گمراہی کا شدید خطرہ مول لے رہا ہے۔ وہ تعصب کا شکار ہوجائے گا۔ وہ ساری زندگی کنفیوژ ہو کر اس عزم سے محروم رہے گا جو عمل پر ابھارتا ہے۔ یا پھر پہلے خود گمراہ ہوگا اور پھر دوسرے کی گمراہی کا وبال لادے روز قیامت ایک مجرم کے طور پر پیش ہوگا۔