نجات والا ایمان ۔ ابویحییٰ
احادیث کی کتابوں میں کتاب الایمان میں ایک مضمون متعدد طریقے سے آیا ہے۔ ان احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان لانے والوں کو جنت میں داخلے اور جہنم سے نجات کی خوش خبری دی ہے۔ بعض روایات میں تو یہ وضاحت موجود ہے کہ ایسا مومن زنا اور چوری کرنے کے باوجود جنت میں جائے گا، (قال وان زنی و ان سرق، متفق علیہ)۔
ان روایات کو سمجھنے میں لوگوں کر بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ بظاہر یہ روایات اس عمل صالح کی نفی کر دیتی ہیں جو قرآن مجید اور دیگر احادیث کے مطابق جنت کی لازمی شرط ہے۔ تاہم ان روایات کا اصل مدعا اگر واضح ہو تو پھر بات سمجھنی مشکل نہیں۔ یہ روایات عمل صالح کی نفی نہیں کرتیں نہ لوگوں کو بدعملی، زنا اور چوری وغیرہ کی چھوٹ دے رہی ہیں۔ بلکہ درحقیقت یہ ہر طرح کے تعصب سے بلند ایمان کی عظمت کا بیان ہیں۔ یہ ایمان اپنی ذات میں اتنا بڑا عمل ہے کہ نہ صرف پچھلے بلکہ اگلے سارے گناہ بھی معاف کروا دیتا ہے۔
ان روایات کے اصلی مخاطب دراصل صحابہ کرام ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے شرک جن کا آبائی دین تھا۔ ان کے تعصبات خدائے واحد کے بجائے بتوں سے وابستہ تھے۔ یہ کلمہ توحید پڑھتے تھے نہ نبی کے نام کے ساتھ درود پڑھتے تھے۔ ایک اللہ کی عبادت ان کے لیے انتہائی اجنبی تصور اور بتوں کو چھوڑنے کا تصور ان کے لیے باعثِ وحشت تھا۔ مگر جب نور نبوت کی روشنی پھیلی تو یہ تعصب کی ہر دیوار کو ڈھا کر ایمان لے آئے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدترین پروپیگنڈا اور ان کے ماننے والوں پر ظلم شروع ہوگیا۔ آپ کی دعوت سے لوگوں کو دور کرنے کے لیے ایسے ایسے نکتے ایجاد کیے گئے کہ عقل حیران رہ جائے۔ مثلاً کہا گیا کہ قرآن کریم گھر بیٹھ کر گھڑا جاتا ہے۔ الزام لگایا گیا کہ رومی اور عجمی غلام یہ کتاب املا کراتے ہیں۔ یہ القائے شیطان ہے۔ یہ شاعری اور تک بندی کے سوا کچھ نہیں۔ پچھلوں کی کہانیاں ہیں۔ اس شخص پر جادو ہوچکا ہے۔ یہ دوسروں پر جادو کر دیتا ہے۔ خاندانوں میں جدائی ڈلوا دیتا ہے۔ یہ نبی نہیں ایک مجنون ہے۔ ہم اس کی بات مانیں گے تو عرب سے ہمارا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ اسے ماننے والے پر بتوں کی لعنت ہوگی۔ یہ سچا ہے تو پچھلے نبیوں کی طرح عصا سے سانپ اور مردہ سے زندہ کیوں نہیں نکالتا۔ اس پر خزانے کیوں نہیں اترتے۔ فرشتے اس کے ساتھ کیوں نہیں چلتے۔ یہ مستقبل کے واقعات جان کر خود کو نقصانات سے کیوں نہیں بچا لیتا۔ اس کا خدا ہم سے براہ راست کلام کیوں نہیں کرتا۔ یہ سردار ہے نہ امیر تو اس میں ایسی کیا خوبی ہے کہ ہم کو چھوڑ کر اس پر وحی نازل کی گئی۔ یہ ہمارے اسلاف اور آبا و اجداد سے ہٹ کر ایک نئے راستے کی طرف بلا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اگر یہ سچا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں لے آتا۔
گستاخ رسول اور منکر حدیث کی اصطلاح تو آج کے مسلمانوں نے اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے ایجاد کی ہیں، مگر گستاخی رسول اور انکار رسول کا کون سا طریقہ تھا جو اس دور میں استعمال نہیں کیا گیا۔ ایسے میں ’’جادوگر، مجنون اور شاعر‘‘ کا خطاب پانے والے کی بات کون سنتا اور کون آبا و اجداد کے طریقے پر تنقید کرتی کتاب پر ایمان لا کر خود کو مصائب کی بھٹی میں جھونکتا۔ اتنے ’’مضبوط‘‘ دلائل کے بعد کون بازاروں میں چلتے پھرتے اپنے جیسے ایک بشر پر ایمان لا کر اسے نبی تسلیم کرتا۔ باخدا ہمارے جیسے آج کے مسلمان ہوتے تو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ایمان لانے کے بجائے کفار کی صف میں جا کر کھڑے ہوجاتے۔ ہم بتوں کے پکے ماننے والے بنے رہتے۔ اپنے گھر والوں کو ایمان لانے سے روکتے۔ صادق و امین کے خلاف جھوٹ بولتے اور پوری بے حیائی سے جھوٹ پھیلاتے۔ ایمان لانے والوں کو مارتے پیٹتے اور اپنے آبائی دین کی طرف انہیں واپس لانے کی کوشش کرتے۔ اس کے ساتھ اپنی حق پرستی کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے۔
لیکن یہ صحابہ کرام کی عظمت تھی کہ وہ ان سارے حالات کے باوجود نہ صرف ایمان لائے بلکہ ہر طرح کے ظلم کے باوجود اس ایمان پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے پروپیگنڈے کی اس کالی آندھی کے باوجود اندھا بنے رہنے سے انکار کر دیا۔ مخالفت کے ہر طوفان کے باوجود داعی حق کی پکار پر بہرہ بننے سے انکار کر دیا۔ نفرت کے ہر سیلاب کا سامنا کر کے رب واحد کی بندگی کی شاہراہ کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
ان کا ایمان ان کا پیدائشی عقیدہ نہیں تھا بلکہ ان کی زندگی میں کیا جانے والا سب سے بڑا عمل بھی تھا۔ اپنے تعصبات کے خلاف ایمان لانے کا یہ عمل اتنا بڑا تھا کہ اس کے نتیجے میں ان کے ہر سابقہ گناہ کو معاف کر دیا گیا۔ اپنے جذبات کے خلاف ایمان لانا اتنا بڑا کام تھا کہ اس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ جذبات میں آکر ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا۔ لیکن باخدا سرکار دو عالم، محسن انسانیت اور کائنات کے سب سے بڑے عارف نے بالکل درست کہا کہ اس کے بعد اگر زنا اور چوری بھی ہوجائے تو یہ گناہ ایسے ایمان لانے والے کو کسی صورت جنت میں جانے سے نہیں روک سکتا۔ باخدا ایمان کے اس من کے آگے زنا کا تولہ اور چوری کا ماشہ کیا وزن رکھتا ہے۔ اس عمل کے بعد کوئی عمل اتنا نقصان دہ نہیں رہتا کہ انسان کو جنت سے محروم کر دے۔
باخدا میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات بالکل درست ہوتی ہے۔ آپ ان روایات میں یہ نہیں بتا رہے کہ عمل صالح کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ یہ نہیں بتا رہے کہ زنا اور چوری کرنا چھوٹی چیزیں ہیں۔ آپ یہ بتا رہے ہیں کہ اپنے تعصبات کے خلاف جا کر ایمان لانا اتنا بڑا عمل ہے کہ اس کے مقابلے کا کوئی عمل اس کائنات میں موجود نہیں۔
آہ مگر یہ کیسا عجیب سانحہ ہے کہ آج نبی کے نام لیوا بہت ہیں۔ مگر صحابہ کرام کی طرح تعصب کی ہر زنجیر کو کاٹ کر ایمان کا طوق پہننے والے ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔