نعمت ، شکر اور جواب دہی ۔ ثمر عمیر
کوا اڑتا ہوا سیدھا اپنے پنجوں پر بغیر کسی لرزش کے چھت کی کگر(کنارے) پرآ کر بیٹھ گیا۔ یہ روزمرہ دیکھا جانے والا ایک منظر تھا، مگر بصیرت والوں کے لیے اس انتہائی ہموار لینڈنگ میں خدا کی غیر معمولی انجینئرنگ کا ایک مشاہدہ پوشیدہ تھا۔ کوے کی نظر نے اس کی تیز رفتاری کے باجود جس جگہ پر پنجے رکھنے تھے، ٹھیک اسی مقام کا احاطہ کرلیا اور بغیر کسی لغزش کے اس کے قدم وہیں جم گئے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے شاندار ہوائی جہاز اتنے سارے اہتمام اور زمینی رابطوں کے باوجود تباہی کی داستانیں رقم کرتے رہتے ہیں۔ انسانی تخلیق مکمل حساب کتاب، مشینی درستی اور خودکار نظام کے باوجود اکثر حادثات کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ہم کائنات میں چارسو پھیلی چھوٹی بڑی خدائی تخلیقات میں عیاں غیر معمولی صناعی کو دریافت کر کے خالق کائنات کو داد دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
بیسویں صدی کی غیرمعمولی ترقی، حیرت انگیز دریافتوں اور ایجادات کا مزہ چکھنے کے باوجود کم ظرف انسان خدا کی عظمت کا اعتراف کرنے، اس کی حمد و ثنا کے نغمے بکھیرنے سے غافل اور اپنی محدود اور فانی دنیا میں مگن رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس سوچ سے عاری ہے کہ جن نعمتوں میں اس کے صبح و شام گزرتے ہیں، اسے ایک دن ان نعمتوں کا حساب بھی دینا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ جب ہر چیز بامقصد اور حکمت کے تحت پیدا کی گئی ہے اور اس کا اصل فائدہ بھی انسان ہی اٹھا رہا ہے تو منطقی لحاظ سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسے جواب تو دینا ہوگا۔ لہٰذا غفلت کی نیند سونے کے بجائے ہمیں خدا کے حضور نعمتوں کا شکرانہ پیش کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا اور دنیا سے آگے بڑھ کر آخرت کی جواب دہی کے احساس میں جینا ہوگا۔